ج: قرآن دراصل محمد ﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔ یہ اجمال کچھ تفصیل طلب ہے۔ آپ دیکھیے !مذہب کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ خدا نے یہ کائنات آزمایش کے لیے بنائی ہے ، وہ اِس میں لوگوں کو پیدا کرتا ہے۔اُنہیں مختلف حالات میں رکھ کر آزماتا ہے۔پھر ایک دن وہ اِس دنیا کو ختم کردے گا،قیامت لائے گا اورتخت عدالت پر جلوہ افروز ہو گا۔ اُس دن وہ پروردگار عالم اِس دنیا میں آزمائے گئے لوگوں کے اعمال کا نتیجہ سنائے گا۔ یہ بات جب لوگوں کے سامنے پیش کی گئی ،تو انہوں نے اِس کا مختلف انداز سے انکار کیا ، کسی نے کوئی بہانہ تراشا اور کسی نے کوئی۔ تب پروردگار عالم نے گاہے گاہے اپنے رسولوں کے ذریعے سے، اِس دنیا پر اپنی حجت تمام کی اور اُن کے انکار کی بنا پر ، اُس قیامتِ کبریٰ سے پہلے نشانی کے طور پر ایک قیامتِ صغریٰ برپا کر دی تا کہ یہ دوسرے لوگوں کے لیے ایک یاد دہانی ہو۔ ‘‘لنجعلہالکم تذکرۃ و تعیہا اذن واعیۃ’’(تا کہ ہم اِس واقعہ کو تمہارے لیے درسِ موعظت بنا دیں اور اُسے (سن کر )یاد رکھنے والے کان یاد رکھیں )۔ (الحاقۃ ۶۹: ۱۲) اور آخری بار یہ قیامت صغری محمد ﷺ کے زمانے میں برپا کی گئی۔
مذہب جس قیامت کا مدعی ہے، اُسے وہ جزیرہ نمائے عرب میں برپا کر کے دکھا چکا ہے اور قرآن، اُس جزا وسزا کی سرگذشت ہے، جو محمد ﷺ نے برپا کی تھی ۔اِسے اِس زاویے سے دیکھیے اور اِس پہلو سے پڑھیے ، تو اِن شاء اللہ کوئی اشکال باقی نہ رہے گا اور اِس سے ہٹ کر دیکھیے، تو سوالات ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: آپ کا کیا خیال ہے ؟کیا گناہ اور کفر و شرک، انجانے میں ہو سکتے ہیں۔ کیا کوئی بے جانے بوجھے چور ہو سکتا ہے یا بے جانے بوجھے حق کا منکر ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جیسے ایمان ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ بے جانے بوجھے نہیں ہو سکتے ، اسی طرح گناہ اور کفر و شرک ،یہ بھی بے جانے بوجھے نہیں ہو سکتے چنانچہ مجھے اس سے تو اتفاق نہیں ہے کہ انجانے میں شرک ہو سکتا ہے البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ آدمی کسی غلط فہمی کی بنا پر ایک بات کوجو توحید کے منافی ہو اُسے توحید کے عین مطابق سمجھتا رہے اور اُس کے مطابق عمل کرتا رہے۔ یہ بالکل دوسری بات ہے۔ اِس آدمی کو آپ مشرک کہیے، یہ چیخ اٹھے گا۔اگر یہ آدمی اندر سے حق پرست ہے ،تو اِس کو اِس غلط فہمی پر سزا نہیں ملنی چاہیے، معافی ہی ملنی چاہیے۔اور اگر یہ حق پرست نہیں ہے تو یقیناً یہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔چنانچہ وہ لوگ جو کسی غلط فہمی کی بنا پر یا تاویل کی غلطی کی بنا پر شرکیہ اعمال میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں مشرک کہنا زیادتی ہے ۔
مشرکین مکہ یا یہود کو جب ہم مشرک یا حق کامنکر کہتے ہیں تو قرآنِ مجید کی اطلاع کی بنا پر کہتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی اپنائے ہوئے تھے، جان بوجھ کر اپنائے ہوئے تھے۔قرآن مجید اطلاع نہ دیتا تو ہم ان کے بارے میں بھی اُسی طرح کچھ نہ کہہ سکتے، جیسے آج اپنے سامنے شرکیہ عمل میں گرفتار آدمی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی غلط فہمی کی بنا پر کر رہا ہے یا وہ جو کچھ کر رہا ہے، جان بوجھ کر کر رہا ہے۔البتہ خدا آج بھی اپنے بندوں پر اپنی عمومی حجت پوری کر رہا ہے اور انہیں چھانٹ چھانٹ کر الگ کر رہا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون سچا مشرک ہے اور کون غلط فہمی کی بنا پر اِس میں گرفتار ہے۔ ہم یہ بات آج نہیں جان سکتے ،ہم پر یہ قیامت ہی کو کھلے گی۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: وہ غلط عمل جو مجبوری کی حالت میں کیا جاتا ہے ، اُس میں چونکہ رغبت ، ارادہ اور نیت شامل نہیں ہوتے ، لہذا، وہ تو معاف ہو سکتا ہے۔ لیکن جب کسی غلط عمل میں رغبت ، ارادہ اور نیت شامل ہو جائے ، تو پھر وہ مجبوری کی حالت میں کیا گیا عمل شمار نہیں ہو سکتا۔ پس آدمی ایسے غلط عمل پر ہونے والی گرفت کی زد میں آ سکتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: امت کے اور رسولؐ اللہ کے مابین تواتر کی واحد کڑی صحابہ ؓکرام ہیں۔ شیعہ حضرات تواتر کی اِس کڑی سے محروم ہیں ۔لہذا، اُن کے ہاں تواتر کا کیا سوال۔اُن کے مسلک میں موجود درجِ بالا خلا کی طرف اُن کی توجہ مبذول کرانی چاہیے۔ اِس کے بعد جیسے جیسے بات آگے چلے ،اُن سے بات کرنی چاہیے لیکن یہ ساری بات علما کی راہنمائی ہی میں ہونی چاہیے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: رفع یدین عملی تواتر یعنی سنت سے ثابت نہیں ہے، اگر یہ عملی تواتر سے ثابت ہوتا تو آج اِس پر کوئی بحث نہ ہوتی۔یہ مسئلہ اُس وقت سے اٹھا ہے، جب سے تواتر کے بجائے حدیث کو نماز کا اصل مبنٰی بنایا گیا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: ان نمازیوں سے مراد وہ مشرکین مکہ ہیں جو اپنا مذہبی بھرم قائم رکھنے کے لیے ریاکاری کی نماز پڑھتے تھے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: اگر کچھ لوگ اپنے تصورات کو معیارِ حق بنا لیں اور دوسروں کے صحیح غلط ہونے کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیں ، تو وہ ایک فرقہ بن جاتے ہیں۔اِس حوالے سے اِس امت میں کتنے فرقے بن چکے ہیں ، یہ اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: تقلید اپنے سادہ معنوں میں وہ رویہ ہے ، جو عام آدمی کو اپنے معتمد علما کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی یہ کہ وہ اُن سے دین معلوم کرے اور اُس پر عمل کرے ، اُن کے ہاں کسی غلطی کی نشان دہی ہوجائے، تو اُس معاملے میں جو صحیح بات سمجھ میں آئے اُس پر عمل کرے۔یہ تقلید تو ایک عام آدمی کے لیے بالکل صحیح رویہ ہے۔لیکن اگر کوئی آدمی کسی خاص شخص یا گروہ میں حق کو محصور یا مخصوص سمجھ لے اور اُس خاص شخص یا گروہ کے نقطہ نظر میں کسی غلطی کی نشان دہی ہو جانے کے باوجود اُسی کی پیروی پر مصر ہو ، تو یہ تقلیدِ جاہلی ہے اوریہ شرک ہے۔ اہل حدیث حضرات کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو جس تقلید سے نکالنا چاہتے ہیں خو د بھی کچھ اُسی طرح کی تقلید میں گرفتار ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج :وہ شرک جو ناقابل معافی ہے وہ عقیدے کا شرک ہے۔ تکبر اور ریا شرک نہیں بلکہ یہ شرکیہ اعمال ہیں۔ ایک مومن سے ان کا صدور ممکن ہے۔لیکن یہ اعمال اگر کسی شخص کی نفسیات پر چھا جائیں اور اُس کی شخصیت کو ایک متکبر کی شخصیت بنا دیں یا ایک ریا کار کی شخصیت بنا دیں تو پھر معاملہ مختلف ہو گا۔ایسے شخص کا حقیقی مومن رہنامحال ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: انشورنس کے حوالے سے یہ گزارش ہے کہ بیمہ پالیسی میں فی نفسہ تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اِس کا سارا نظام چونکہ سود پر مبنی ہے، اِس وجہ سے اِسے اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ اِس کی ملازمت کا بھی وہی معاملہ ہے ، جو مثلاً بنک میں ملازمت کا معاملہ ہے۔آدمی کو اِس سے بچنے ہی کی کوشش کرنی چاہیے۔
پرائز بانڈ سکیم صریح سود ہے ۔ اِس میں جس چیز کو پرائز کہا جاتا ہے، وہ دراصل، وہ سود ہوتا ہے، جو قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیا جاتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: حدیث میں جلّالہ کا گوشت کھانے سے جومنع کیا گیا ہے ، اُس سے مراد اُس جانور کا گوشت ہے، جو غلاظت کھانے کا عادی ہو جاتا ہے اور اِس وجہ سے اُس کے گوشت سے بو آنے لگتی ہے ۔ اُس کا گوشت کھانے سے منع کرنے کی وجہ بالکل فطری ہے ۔یعنی یہ کہ انسان کی فطرت اِس طرح کی بدبودار چیزیں کھانے سے گریز کرتی ہے۔شیور مرغی کا معاملہ اُس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: مسئلہ تقدیر کے حوالے سے دو طرح کی احادیث ہمارے سامنے آتی ہیں۔پہلی قسم تو وہ ہے جن کے بارے میں یہ بات صاف محسوس ہوتی ہے کہ اُن میں نبی ﷺ کی بیان کردہ اصل بات روایت ہونے سے رہ گئی ہے ۔جو الفاظ اِن روایات سے ہمارے سامنے آتے ہیں انہیں وہ شعور قبول نہیں کرتا ، جو قرآن مجید کے کسی طالب علم کو اُس سے حاصل ہوتا ہے۔اِن روایات کے علاوہ باقی رویات میں کوئی تضاد نہیں اوروہ آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں البتہ آسانی تفہیم کے لیے ان کے بھی گروپ بنائے جا سکتے ہیں۔مثلاً بعض میں علم الہی کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی کسی واقعے کے وقوع سے پہلے اپنے کمالِ علم کی بنا پر اُسے جانتا ہے۔اُس کا یہ کمال علم ،اُس کے کمال قدرت کی بنا پر کسی جبر کو مستلزم نہیں ہے۔اگر وہ اپنی قدرت اور اپنے علم میں کامل نہ ہوتا اور اُس کا علم ،اُس کے ذہن میں موجود طے شدہ مستقبل کا مرہون منت ہوتا تو بے شک پھر جبر لازم آتا۔ لیکن خدا کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔وہ احادیث جہاں آدمی کے اعمال اور اُس کے نیک بخت یا بد بخت ہونے کا بیان ہے،یہ بھی دراصل، خدا کے علم ہی کو بیان کرتی ہیں۔بعض احادیث خدا کی قدرت کو بیان کر تی ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ خدا کی قدرت اِس کی حکمت کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اِس بات کا انکار تو وہی کرے گا جو خدا کی صفات کے سارے معاملے کو صرف کسی ایک حدیث سے طے کرنا چاہے گا۔ وہ احادیث جہاں رزق ،زندگی اور موت وغیرہ کا ذکر ہے، ان میں دراصل، خدا کی طرف سے ملنے والی اُن نعمتوں اور تکالیف کا بیان ہے، جو خدا کی مطلق مرضی اور اُس کی لا محدود حکمت کے ساتھ انسان کی آزمایش کے لیے اُسے دی جاتی ہیں۔ظاہر ہے کہ اِس معاملے میں سارے کا سارا فیصلہ یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ اُسی طرح کا ہے جیسا کہ ایک ممتحن یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے امتحان دینے والے سے کون سا سوال پوچھنا ہے اور کون سا نہیں پوچھنا۔جن احادیث میں تقدیر پرغورسے منع کیا گیا ہے ان میں در اصل خدا کے لامحدود علم کا احاطہ کرنے کی کوشش کرنے سے منع کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ کوشش سراسر حماقت ہے۔‘‘وما اوتیتم من العلم الا قلیلا’’۔ انسان کا علم بہت محدود ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: آپ کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کے بھائی نے پورے شعور سے دو طلاقیں دی ہیں اور تیسری طلاق شعوراً روک رکھی ہے۔ اِس کے بعد پھر سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ رجوع چونکہ عدت کے دوران ہی میں ہوا ہے، لہذا، نکاح ثانی کی تو ضرورت نہیں صرف یہ رجوع ہی کافی ہے۔ لیکن ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور اب صرف تیسری کا موقع ہے۔ جونہی یہ تیسری طلاق بھی خدا نخواستہ دے دی گئی، تعلق ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گا۔آپ کا دکھ اور کرب اپنی جگہ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں انسانوں کو جب بھی ظلم کا موقع ملتا ہے، تو اُن میں سے ایسے لوگ بہت تھوڑے ہوتے ہیں ، جو اُس موقع پر اپنی موت کو یاد رکھتے اور خدا سے ڈرتے ہیں۔آپ سوائے اِس کے کچھ بھی نہیں کر سکتیں کہ اپنے بھائی کو خدا کا خوف دلائیں۔ اگر وہ خدا کا ذرا بھی خیال نہیں کرتا، تو پھر بھی آپ اُسے خدا ہی کا خوف دلائیں۔ اِس لیے کہ ہمارے پاس اُس زبردست قہار اور اُس زورآور جبار کا خوف دلانے کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ کسی کو ہم پکڑ نہیں سکتے،پکڑتا وہ خود ہے۔ہم چاہے بھائی ہوں باپ ہوں یا بیٹے ،کسی ظلم کرنے والے کو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ تم خدا کے عذاب کو آواز نہ دو۔اُس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔اُس کی رحمت ظالموں کی مخالف ہے۔ وہ ظلم کرنے والوں پر نہیں، بلکہ مظلوموں پر اور ظلم سے توبہ کرنے والوں کے لیے مہربان ہے۔ خود آپ ہرممکن حد تک اپنی مظلوم بھاوج کا ساتھ دیں۔ حالات کو بہتر کرنے کی تدابیر ضرور اختیار کریں۔ لیکن یہ تسلی رکھیں کہ اگر اُسے آخری طلاق بھی دے دی گئی ، تو اِس صورت میں اُس کے حق میں خدا کی طرف سے ضرور کوئی حکمت ہی ہو گی۔اللہ مصائب پر صبر کرنے والے کو بے پناہ اجر دیتا ہے اور اُس کے لیے آسانی کی راہیں کھولتا ہے۔ دین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اصل مسئلہ اُس کا نہیں ہے جس پر دنیا کی کوئی مصیبت آئی ہے ، بلکہ اُس کا ہے جو خدا کی گرفت میں آنے والا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: اللہ کے سب صفاتی نام معرف باللام ہو کر آتے ہیں۔ یعنی اُن سے خاص ذات مراو ہوتی ہے۔ پس ‘ال’ کے بغیر یہ صفاتی نام کوئی انسان بھی رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ ایک انسان علی تو کہلا سکتا ہے، لیکن وہ العلی نہیں کہلا سکتا۔العلی صرف اور صرف خدا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: کھانے والی چیزوں میں سے حلت و حرمت کے حوالے سے جو شریعت نے حرام ٹھہرائی ہیں،وہ چار ہیں۔ مردار ، بہتا ہوا خون ، سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر کیا جانے والا ذبیحہ۔یہ چیزیں تو شریعت کی طرف سے حرام کی گئی ہیں۔ اِس کے علاوہ کچھ چیزیں فطری طور پر کھانے والی نہیں ہیں۔ مثلاً بول و براز، درندے وغیرہ۔احادیث میں بعض مواقع پر اِسی فطرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خرگوش کو اِسی فطری حلت و حرمت کے حوالے سے حلال چیزوں میں شمار کیا گیا ہے اور بندر کو حرام چیزوں میں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: شیعہ امام کے پیچھے نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے۔ مقتدی یہ نماز اپنے طریقے پر ہی ادا کرے گا۔اُن کی زائد تکبیریں اِس کے لیے زائد ہوں گی۔نمازِ جنازۃ میں کب کیا پڑھنا ہے، یہ فقہا کا استنباط ہے، اِس میں کوئی چیز نبیﷺ سے سنت یعنی لازم کی حیثیت سے ثابت نہیں ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: خالص موحد وہ ہے، جس کے دل میں توحید ہی توحید ہو ۔ اور خالص مشرک وہ ہے، جس کے دل میں شرک ہی شرک ہو۔ مشرکینِ عرب کو اللہ نے اِس لیے مشرک قرار دیا تھا کہ اُن کے دل شرک ہی شرک تھا۔رہا وہ شخص جو ہمیں شرکیہ اعمال میں پڑا ہوا نظر آتا ہے ، اُس کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا دل بھی شرک سے آلودہ ہے،اِس کا پورا امکان ہے کہ وہ دل سے بھی مشرک ہی ہو اور توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اگر اُس تک پہنچے بھی تو وہ اُسے قبول نہ کرے۔ لیکن اُس کے بارے میں ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو ، جونہی توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اُس تک پہنچے وہ اُسے قبول کر لے ۔ ـچنانچہ ہم اُس شخص کے بارے میں جو ہمیں بس مشرکانہ اعمال ہی میں مشغول نظر آتا ہے، کیسے یہ کہہ دیں کہ اُس کا دل شرک سے لازماً اُسی طرح آلودہ ہے، جیسے مشرکینِ مکہ کا تھا اور وہ بھی خدا کے نزدیک اُسی طرح سے حقیقی مشرک ہے، جیسے مثلاً مشرکینِ مکہ تھے۔ ہو سکتا ہے وہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ نہ ہو۔ہمارا اُس کے بارے میں کوئی حتمی بات کرنا دراصل، اُس کے بارے میں خدا کے علم کو بیان کرنا ہو گا۔ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جو مشرک ہو گا، وہ جہنمی ہو گا۔لیکن عمدا اورناواققی کی بناپر کیے گئے شرک میں فرق کر نا ہو گا۔ اگر ہم عمد اور غیر عمد کو یکساں قرار دیں تویہ قرآنِ مجید کی صریح نص کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری ہے: ‘‘و لیس علیکم جناح فیما أخطاتم بہ ولکن ما تعمدت قلوبکم’’۔(الاحزاب ۳۳: ۵)
‘‘اور جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی اُس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو دل کے ارادے سے کرو اُس پر مؤاخذہ ہے۔’’
(محمد رفیع مفتی)
ج: جرم کی سزا دراصل، اُس کی شناعت اور اُس کی سنگینی کی بنا پر ہوا کرتی ہے، نہ کہ مدتِ جرم کی بنا پر۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ مدتِ جرم بھی جرم کی سنگینی میں اضافے کا باعث ہوتی ہے، لیکن جرم کی سنگینی کی واحد وجہ اُس کی مدت نہیں ہوتی ۔ بعض جرم چند لمحوں کے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے بے پناہ اثرات چھوڑتے ہیں۔ مثلاً کسی کو قتل کرنے کا جرم۔ چنانچہ اصل مسئلہ جرم کی شناعت کا ہے۔اگر کوئی شخص اپنے شفیق اور مہربان والدین کو قتل کر دیتا ہے، تو آپ بتائیے کہ اُس کے جرم کی سنگینی کس درجے کی ہے۔ ایک دوسرے پہلو پر غور کریں۔نیکی کے بدلے میں نیکی کی جائے، تو یہ خوبی ہے۔ لیکن اگر وفاکے بدلے میں بے وفائی کی جائے، ایثار کے بدلے میں لُوٹ لیا جائے،خدمت کرنے کے بدلے میں بے گار لی جائے، محبت کرنے کے بدلے میں دشمنی کی جائے، تو یہ سراسر ظلم ہو گا ، بہت بڑا ظلم۔اور اسی لحاظ سے سنگین بھی قرار پائے گا۔
خدا انسان کا خالق بھی ہے اور رب بھی، اُس کا منعم بھی ہے اور محسن بھی۔ انسان محض اور محض خدا کے فضل کے سہارے کھڑا ہے۔انسان کے ساتھ خدا کا رویہ انتہائی احسان کرنے والے کا ہے۔ اُس کے ساتھ انسان کا معاملہ برابر کانہیں ہے۔ انسان خدا کے بل بوتے پر قائم ہے۔ وہ اُس کا سراپا محتاج ہے ۔ چنانچہ پھر انسان کی طرف سے اتنے اچھے اور اُس کی زندگی میں اتنی اہمیت رکھنے والے خدا کے ساتھ، ایک لمحے کی سرکشی بھی اپنے اندر لا محدود سنگینی رکھتی ہے۔ اِس لیے کہ یہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ سر کشی ہے۔ یہ بندے کی اپنے رب کے ساتھ سر کشی ہے اِس جرم کی شناعت ماپی ہی نہیں جا سکتی۔ انسان جب فی الواقع مجرم بن کر جرم کرتا ہے تو اُس کی اپنی جانب سے جرم زماں و مکاں کی حدوں میں محدود نہیں ہوا کرتا۔ فرعون نے اپنے ارادے اور اپنی نیت کے اعتبار سے کسی محدود وقت تک کے لیے فرعونیت اختیار نہیں کی تھی اور اپنی طرف سے اُس نے اپنی فرعونیت کا دائرہ صرف ملکِ مصر تک محدود نہیں کیا تھا ۔ اُسے خدا نے جتنا موقع دیا تھا، اُس میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا اور جتنا علاقہ دیا، اُس سب میں اُس نے فرعون ہی بن کر دکھایا تھا۔ خدا اگر اُس کے لیے مواقع اور علاقے کو لامحدود کر دیتا تو کیا خیال ہے کہ ہم اُسے آج ایک مہربان بادشاہ کے طور پر دیکھ رہے ہوتے، نہیں بالکل نہیں۔ خدا سے سرکشی اپنی اصل ہی میں زماں و مکاں سے بالا ایک لا محدود جرم ہوتا ہے۔سرکشی کرنے والا ایک خاص مدت کا تعین کر کے سرکشی نہیں کرتا۔اسے اگر مزید موقع ملتا تو وہ مزید سرکشی کرتا گویا اس کی نیت لامحدود ہی کی ہوتی ہے ۔اس لیے اس کی سزا بھی لامحدودہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: بعض احادیث میں اِس طرح کی بات آئی ہے، لیکن وہ احادیث ایک تو اتنی مستند نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ اگر کوئی حدیث ہے بھی تو یہ قرآن مجید کی آیات کے خلاف کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ دوزخ کی ابدیت کوقرآنِ مجید کی کئی آیتیں بیان کرتی ہیں۔مثلاً :‘‘ومن یعص اللہ و رسولہ فان لہ نار جہنم خٰلدین فیہا ابدا۔’’ ( الجن ۷۲:۲۳) جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے ، تو بے شک اُن کے لیے جہنم کی آگ ہو گی،جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: امت نے نماز بخاری و مسلم کی احادیث سے نہیں سیکھی، بلکہ یہ دین کے اُس عملی تواتر سے سیکھی ہے، جس پر اصل دین یعنی قرآن و سنت کھڑے ہیں۔اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ جیسے امام بخاریؒ کو میسر آنے والی کوئی صحیح حدیث قرآن کی آیت میں تبدیلی نہیں کر سکتی، اِسی طرح کوئی صحیح حدیث نماز کی اُس شکل میں اضافہ یا کمی بھی نہیں کر سکتی ، جو شکل ہمیں نبی ﷺ کی جاری کردہ سنت سے ملی ہے۔ اگر نماز اپنی اصل میں راویوں کے ذریعے سے ملنے والی احادیث پر کھڑی ہوتی، تو پھر ہماری یہ بات ٹھیک نہ تھی۔ پھر جونہی کسی راوی سے ہمیں کوئی حدیث ملتی ہم نماز کی شکل اُس حدیث کے مطابق کر لیتے۔ حدیث اور سنت کے فرق کے حوالے سے آپ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حدیث ہمیں راوی سے ملتی ہے اور سنت ہمیں امت (کے عملی تواتر )سے ملتی ہے، اِس لحاظ سے دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے باقاعدہ عملاً اس امت میں رائج کیا ہے اور صحابہ کو عملًا سکھایا ہے اور صحابہ نے مابعد نسلوں کو سکھایا ہے اور قرآن کی طرح نسلاً بعد نسلاً تواتر سے امت کو منتقل ہوئی ہے ۔ نماز کا طریقہ بھی عملاً اسی سنت سے منتقل ہوا ہے نہ کہ احادیث سے البتہ احادیث میں بھی اس طریقے کا ذکر موجود ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: ختم نبوت کی بے شمار حکمتیں علما نے بیا ن کی ہیں لیکن میرے خیال میں یہ سوال خدا کے باطن میں جھانکنے کی لاحاصل کوشش ہے۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے علم کے مطابق جہاں جہاں اور جب جب رسول بھجنا چاہا ہے، بھیجا ہے اور جب اُس کے نزدیک اِس کی ضرورت نہیں رہی اُس نے ختم نبوت کا اعلان کر دیا۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: اس کا مطلب ہے ( اُس دن ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تو بھر گئی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے؟)یہ باتیں متشابہات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اِس دنیا اِن کا سمجھنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہم اِن کی حقیقت کا کوئی علم رکھتے ہی نہیں۔ لہذا ،اِن کی کھوج کریدکرنا حماقت ہے۔اِس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔یہ راز اگر خدا نے چاہا تو انسان پر آخرت ہی میں کھلیں گے۔ ہم سچے ذریعے سے ملنے والی بات پر پورا یقین رکھتے ہیں،گو اُس کی حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج۔ نبی ﷺ کا نام سن کر اگر کوئی درود پڑھنے سے لاپروائی کرے، تو یہ غلط ہے۔ یہ دراصل، ہم پر نبی ﷺ کے ایک اہم حق کو ادا کرنے سے لاپروائی ہے۔ البتہ درود کا یہ پڑھنا نماز اور روزے کی طرح فرض نہیں ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: بہائی فرقے کا جو استدلال آپ نے لکھا ہے یہ کوئی علمی استدلال نہیں ہے، بلکہ یہ صرف ایک منطقی مغالطہ ہے جو یہ حضرات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔نبوت کے معاملے میں اِس استدلال پر آپ غور کریں۔ اِس کے مطابق ہرامت کی لازماً ایک انتہا ہوتی ہے، اُس انتہا کے بعد لازماً، ایک رسول آتاہے اور پھر وہ ایک نئی امت تشکیل دیتا ہے، جس کی پھر ایک انتہا ہو گی اور جس کے بعد پھر ایک رسول آئے گا۔ یہ استدلال متعلقہ آیات کے حوالے سے اپنے اندر کیا سقم رکھتا ہے، یہ الگ بحث ہے لیکن ایک عجیب بات آپ یہ دیکھیں کہ اِس کے نتیجے میں یہ بات ہمیشہ کے لیے طے ہو جاتی ہے کہ نہ کبھی امتوں کا پیدا ہونا اور مرنا ختم ہو گا اور نہ کبھی رسولوں کا آنا۔ نتیجتہً یہ ثابت ہوا کہ یہ دنیا ہمیشہ ہمیش کے لیے باقی رہے گی، اِس میں رسول آتے رہیں گے اور امتیں پیدا ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ قرآن کے وہ سب بیان غلط ہوئے، جن میں اِس دنیا کے خاتمے کی خبر دی گئی ہے۔
سورہ اعراف کی جن آیات کے حوالے سے یہ استدلال انہوں نے بیان کیا ہے ، اُن آیات میں فی نفسہ نبوت کا مسئلہ بیان ہی نہیں کیا جا رہا کہ اُس کا سلسلہ چلتا رہے گا یا کبھی بند ہو جائے گا۔ بلکہ اُن آیات میں بنی نوع آدم سے یہ کہاجا رہا ہے کہ اگر اُن کے پاس انھی میں سے رسول آئیں، یعنی اگر آئیں ،تو انہیں اُن کی بات ماننا ہو گی، وغیرہ وغیرہ۔ آپ دیکھیں کہ اِس آیت سے ہم ختم نبوت کا عقیدہ صحیح ہے یا نہیں، اِس مسئلے کو کیسے سمجھیں، یہ آیت تو اِس کے بارے میں کوئی بات کر ہی نہیں رہی۔ پھر مسئلہ یہ ہے ہے کہ ایک دوسری آیت ختمِ نبوت کے اِس مسئلے کے بارے میں باقاعدہ بات کر رہی ہے۔ اُس آیت کو ہم کیسے چھوڑیں اور اِس مسئلے کے لیے خاص اِس آیت کی طرف کیسے رجوع کریں۔مختصراً یہ کہ سورہ اعراف کی اِن آیات کا اول تو ترجمہ ہی غلط کیا گیا ہے، بالفرض محال ہم اِس ترجمے کو صحیح مان بھی لیں، تو ختم نبوت کے بارے میں یہ آیات انتہائی غیر واضح ہیں، چنانچہ ہم خاتم النبیین کی واضح آیت کے ہوتے ہوئے ، کسی دوسری طرف کیسے رجوع کر سکتے ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: دنیا میں نیکیوں پر دنیوی نعمتوں کی شکل میں انعام کا ملنا لازم نہیں ہے۔ خدا اگر کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کرے، تو وہ ایسا کر سکتا ہے لیکن لازم نہیں ہے ۔ یہ دنیا چونکہ اصلاً، آزمایش کے لیے بنائی گئی ہے۔ لہذا، یہاں پر اگر کسی کو کوئی انعام دیا جاتا ہے تو وہ دراصل، اُس کی آزمایش ہی کے لیے ہوتا ہے، جیسا کہ ہم سورہ نمل کی آیت (۴۰) میں دیکھتے ہیں۔ فرمایا:قال ہذا من فضل ربی لیبلونی أ اشکر ام أکفر۔ یعنی ‘‘(سلیمان) نے کہا کہ یہ (تختِ بلقیس کا آ جانا) میرے رب کے فضل سے ہے،تا کہ وہ مجھے جانچے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری’’۔
(محمد رفیع مفتی)
ج۔ بے شک انسان کو اُس کا مقدر رزق ہی ملتا ہے۔البتہ کوشش کرنا فضول نہیں، کیونکہ اِس سے وہ رزق ملتا ہے، جس کا ملنا کوشش کے ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: نظر بد انسانوں کے تجربے میں آنے والی ایک چیز ہے، یہ اپنے کچھ نفسیاتی اثرات رکھتی ہے۔ دین نے اِس طرح کی تمام چیزوں کے معاملے میں ہمیں خدا کی پناہ میں آنے کی تعلیم دی ہے۔ کلماتِ تعوذ سے ایک مسلمان اللہ کی حفاظت میں آتا اور اپنے لیے اُس خاص مشکل کے حوالے سے خدا کی مدد کا طالب ہوتا ہے، جس مشکل کو وہ تدبیر سے رد کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: ہو سکتا ہے آئے ہوں لیکن اس حوالے سے ہمیں قرآن و حدیث سے کوئی معلومات نہیں ملتیں اس لیے یقینی بات کہنا ممکن نہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: اذکار مسنونہ کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا صرف درست ہی نہیں ،بہت خوب ہے۔ اِن کے اصل اثرات وہ ہیں جو تقویٰ ، نیکی ، تفویض ، توکل ، صبر اور شکر وغیرہ کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
ج: صدقہ کسی ظالم خدا کو دیا جانے والاجگا ٹیکس نہیں ہے کہ وہ یہ لے اور ہم پر اپنا ظلم بند کرے اور نہ ہی رشوت ہے بلکہ صدقہ و خیرات اِس امر اور خواہش کا اظہار ہے کہ بندہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، اُس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اُسے اُس کے گناہوں پر سزا نہ دی جائے۔اُس نے خدا کی مخلوق یعنی اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اپنا رویہ درست کر لیا ہے ، وہ اُن کا حق پہچانتا ہے اور اُن کی ضروریات پورا کرنے میں اُن کا معاون بن گیا ہے۔لہذا خدا سے درخواست ہے کہ وہ اس کی مشکلات میں مدد فرمائے ۔صدقہ دعا کی عملی صورت ہے۔
(محمد رفیع مفتی)