جواب: روایات یا تفاسیر فر قہ پید ا نہیں کرتیں بلکہ فرقہ اصل میں ایک ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے یہ آ پ چاہیں تو سائنس میں پیدا کرلیں چاہیں تو ٹیکنالوجی میں پیدا کرلیں۔
دنیا میں ہر علم کو جب پڑھا جاتا ہے ۔تو اس کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں اختلاف ہو جاتاہے۔ شیکسپئر’ملٹن ’علامہ اقبال ’غالب کسی کو دیکھ لیں ا ن کے اشعار کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں بے پناہ اختلاف موجودہے۔اس اختلاف کو شائستگی سے بیان کیجیے۔کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔
کبھی اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ پر الہام ہوتا ہے ۔یہ کہئے کہ میں نے یہ بات سمجھی ہے ۔میں ایک طالب علم ہوں ۔یہ اس کے دلائل ہیں ۔دوسرے آدمی کی بات توجہ کے ساتھ سنئے ۔اگر آپ کی غلطی واضح ہو جائے تو قبول کر لیجئے۔نہ واضح ہوتو شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ کے خاموش ہو جایئے۔کوئی فرقہ نہیں بنے گا ۔لیکن جس وقت آپ اپنی بات کو الہام قرار دیتے ہیں ۔اپنے بزرگوں کی بات حتمی حجت سمجھتے ہیں۔جب آپ کسی نئی چیز کو سنتے وقت فوراًآستین چڑھا لیتے ہیں ۔منہ میں کف بھر لیتے ہیں۔مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔جو آپ کے تعصبات ہیں ان سے ہٹ کے کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تویہ ایک ذہنیت ہے۔یہ ذہنیت کسی بھی علم میں پیدا ہو جائے فرقہ بن جائے گا۔
فرقہ اختلاف کرنے سے نہیں بنتا۔اختلاف تو انسانیت کا حسن ہے ۔ ایک ہے اختلاف کرنے کے لیے اختلاف کرنا ۔دوسرا یہ ہے کہ آپ واقعی کسی مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہوں۔یہ جتنی بھی سائنسی ترقی ہے اصل میں اختلاف کی پیداوار ہے ۔اگر ارسطو سے اختلا ف نہ کیا جاتا تو نیوٹن کیسے پیدا ہوتا ۔دنیا وہیں کی وہیں رکی رہتی۔اختلاف ترقی کا ذریعہ ہے۔ آپ چیزوں پہ غور کرتے ہیں تو آپ کو پہلی رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے آپ کہتے ہیں نہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔
اصل چیز یہ ہے کہ آپ اپنی بات بیان کیسے کرتے ہیں۔باہمی احترام کے ساتھ ایک دوسرے کا حق مان کر یا خود کو تنقیداوراختلاف سے بالاتر سمجھ کر۔ ہمارے ہاں صورتحال یہی دوسری ہے ۔لو گ کہیں گے کہ جی تحقیق ہونی چاہئے۔کوئی کر بیٹھے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔اجتہاد ہونا چاہئے کوئی جسارت کر بیٹھے تواس کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو اپنی آرا دلائل کے ساتھ بیان کر دینی چاہیے۔ آپ کو معقول لگے مان لیں۔معقول نہ لگے اس پر غور کرتے رہیں۔ ہر بیان کرنے والا یہ بتا دے کہ میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں ۔مجھ پر وحی نہیں آتی۔میں سمجھتا ہوں طالب علموں کی طرح اور ہو سکتا ہے کہ مجھے غلطی لگ گئی ہو۔امام شافعی نے اس بات کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔کہ ہم اپنی رائے کو صحیح کہتے ہیں ۔لیکن اس میں غلطی کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔ہم دوسرے کی رائے کو غلط کہتے ہیں لیکن اس میں صحت کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔بس اگر آپ اس جگہ کھڑے ہو جائیں۔ کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔اس جگہ نہ کھڑے ہوں۔ توقرآن میں بھی فرقے پیدا ہوجائیں گے،روایت میں بھی ہو جائیں گے ، حدیث اورفقہ بلکہ ہر چیز میں ہو جائیں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اگر کچھ لوگ اپنے تصورات کو معیارِ حق بنا لیں اور دوسروں کے صحیح غلط ہونے کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں لے لیں ، تو وہ ایک فرقہ بن جاتے ہیں۔اِس حوالے سے اِس امت میں کتنے فرقے بن چکے ہیں ، یہ اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: روایات یا تفاسیر فر قہ پید ا نہیں کرتیں بلکہ فرقہ اصل میں ایک ذہنیت سے پیدا ہوتا ہے یہ آ پ چاہیں تو سائنس میں پیدا کرلیںچاہیں تو ٹیکنالوجی میں پیدا کرلیں۔
دنیا میں ہر علم کو جب پڑھا جاتا ہے ۔تو اس کی شرح و تفسیر میں اہل علم میں اختلاف ہو جاتاہے۔ شیکسپئر‘ملٹن ‘علامہ اقبال ‘غالب کسی کو دیکھ لیںا ن کے اشعار کی شرح و تفسیر میںاہل علم میں بے پناہ اختلاف موجودہے۔اس اختلاف کو شائستگی سے بیان کیجیے۔کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔
کبھی اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ پر الہام ہوتا ہے ۔یہ کہئے کہ میں نے یہ بات سمجھی ہے ۔میں ایک طالب علم ہوں ۔یہ اس کے دلائل ہیں ۔دوسرے آدمی کی بات توجہ کے ساتھ سنئے ۔اگر آپ کی غلطی واضح ہو جائے تو قبول کر لیجئے۔نہ واضح ہوتو شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ کے خاموش ہو جایئے۔کوئی فرقہ نہیں بنے گا ۔لیکن جس وقت آپ اپنی بات کو الہام قرار دیتے ہیں ۔اپنے بزرگوں کی بات حتمی حجت سمجھتے ہیں۔جب آپ کسی نئی چیز کو سنتے وقت فوراًآستین چڑھا لیتے ہیں ۔منہ میں کف بھر لیتے ہیں۔مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔جو آپ کے تعصبات ہیں ان سے ہٹ کے کسی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تویہ ایک ذہنیت ہے۔یہ ذہنیت کسی بھی علم میں پیدا ہو جائے فرقہ بن جائے گا۔
فرقہ اختلاف کرنے سے نہیںبنتا۔اختلاف تو انسانیت کا حسن ہے ۔ ایک ہے اختلاف کرنے کے لیے اختلاف کرنا ۔دوسرا یہ ہے کہ آپ واقعی کسی مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہوں۔یہ جتنی بھی سائنسی ترقی ہے اصل میں اختلاف کی پیداوار ہے ۔اگر ارسطو سے اختلا ف نہ کیا جاتا تو نیوٹن کیسے پیدا ہوتا ۔دنیا وہیں کی وہیں رکی رہتی۔اختلاف ترقی کا ذریعہ ہے۔ آپ چیزوں پہ غور کرتے ہیں تو آپ کو پہلی رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے آپ کہتے ہیں نہیں یہ بات ٹھیک نہیں ہے ۔
اصل چیز یہ ہے کہ آپ اپنی بات بیان کیسے کرتے ہیں۔باہمی احترام کے ساتھ ایک دوسرے کا حق مان کر یا خود کو تنقیداوراختلاف سے بالاتر سمجھ کر۔ ہمارے ہاں صورتحال یہی دوسری ہے ۔لو گ کہیں گے کہ جی تحقیق ہونی چاہئے۔کوئی کر بیٹھے تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔اجتہاد ہونا چاہئے کوئی جسارت کر بیٹھے تواس کا حقہ پانی بند ہو جاتا ہے۔
لوگوں کو اپنی آرا دلائل کے ساتھ بیان کر دینی چاہیے۔ آپ کو معقول لگے مان لیں۔معقول نہ لگے اس پر غور کرتے رہیں۔ ہر بیان کرنے والا یہ بتا دے کہ میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں ۔مجھ پر وحی نہیں آتی۔میں سمجھتا ہوں طالب علموں کی طرح اور ہو سکتا ہے کہ مجھے غلطی لگ گئی ہو۔امام شافعی نے اس بات کو نہایت خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔کہ ہم اپنی رائے کو صحیح کہتے ہیں ۔لیکن اس میں غلطی کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔ہم دوسرے کی رائے کو غلط کہتے ہیں لیکن اس میں صحت کا امکا ن تسلیم کرتے ہیں۔بس اگر آپ اس جگہ کھڑے ہو جائیں۔ کوئی فرقہ پیدا نہیں ہو گا۔اس جگہ نہ کھڑے ہوں۔ توقرآن میںبھی فرقے پیدا ہوجائیں گے،روایت میں بھی ہو جائیںگے ، حدیث اورفقہ بلکہ ہر چیز میں ہو جائیں گے۔
(جاوید احمد غامدی)