جواب:پرائز بانڈ کی حقیقت کیا ہے۔اس کے طے ہونے پر اس کے جواز وعدم جواز کا فتوی موقوف ہے۔ پرائز بانڈ اصل میں حکومت کا عوام سے قرض لینا ہے۔ اس کے لیے حکومت دو طریقے اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ کہ عوام کو طے شدہ منافع ادا کرتی ہے جیسے سیونگ سرٹیفکیٹ۔ دوسرے یہ کہ وہ کچھ لوگوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقوم دیتی ہے جیسے پرائز بانڈ۔ اس دوسرے طریقے میں سوال یہ ہے کہ انعام کی یہ رقم کہاں سے آتی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ وہی سود ہے جو سب افراد کو کسی شرح سے تقسیم کرنے کے بجائے چند افراد کو قرعہ اندازی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔اگر یہ بات د رست ہے تو ایک طرف تو انعام لینے والا اصل میں سود لے رہا ہے۔ دوسری طرف چونکہ یہ انعام قرعہ اندازی کے طریقے پر دیا جاتا ہے اس لیے اس میں جوئے سے ایک مشابہت پیدا ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ انعام کی رقم نئے پرائز بانڈ کے اجرا سے حاصل ہوتی ہے اس لیے یہ سود نہیں ہوتااور جوئے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ جوئے میں ایک آدمی کی رقم اس طرح دوسرے کی جیب میں جاتی ہے کہ ایک آدمی محض کسی اتفاق کے تحت اپنی رقم سے محروم اور دوسرا مالک بن جاتا ہے۔ جبکہ پرائز بانڈ میں ہر آدمی کی رقم پوری طرح محفوظ ہوتی ہے۔اگر صورت حال یہ دوسری ہے تو پرائز بانڈ کو ممنوع قرار دینا مشکل ہے زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پرائز بانڈ خریدنے اور لینے میں اتفاق سے روپیہ حاصل کرنے کی نفسیات کو تقویت ملتی ہے جو جوئے کی اصل ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ اصلاً ممنوع جوا اور سود لیناہے۔ اگر پرائز بانڈ میں ان میں کوئی چیز موجود ہے یا دونوں موجود ہیں تو یہ غلط ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
ج: ان انعامی اسکیموں میں بعض ایسی ہیں کہ جن کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ مثال کے طور پر بعض لوگ اپنی Products بیچتے ہیں، اس کے اوپر کوئی Incentive دے دیتے ہیں تو اس کو علی الاطلاق غلط نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن بہت سی اسکیمیں بالکل جوئے کی طرح کی ہیں۔ اس معاملے میں دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ شعور کو بیدار رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ آدمی جوئے میں ملوث نہ ہو، دوسرا یہ کہ آدمی سود میں ملوث نہ ہو۔ یہ دونوں چیزیں بالکل ممنوع ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ سیونگ اکاؤنٹ پر منافع سود کے ذیل میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں انعامی بانڈ، پرچی سسٹم اور اس طرح کی دوسری سکیمیں جو بھی نکلی ہوئی ہیں وہ سب جوئے ہی کی اقسام ہیں۔ یہ سب چیزیں قسمت آزمائی ہیں، لہٰذا اس طرح کی چیزوں سے بچنا چاہیے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے نفع نقصان میں شرکت کی ہے ۔لیکن حقیقت میں تو بس نام ہی تبدیل ہوا ہے ۔ہر آدمی جوبینکنگ کو جانتا ہے اسے اس کی حقیقت اچھی طرح معلو م ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب۔ اسلام سود کی ممانعت اس لیے کرتا ہے کہ یہ اخلاقی مفاسد کا حامل ہے۔اس لیے ایک شخص کو سود کی رقم استعمال نہیں کرنی چاہیے چاہے وہ اس کے اکاؤنٹ میں زبردستی ہی کیوں نہ کریڈٹ کر دی جائے۔بنک چارجز تو اصل میں بنک کی ان خدما ت کا معاوضہ ہے جو بنک آپ کو فراہم کرتا ہے۔اگر ان خدمات کامعاوضہ زیادہ ہے تواس کامطلب یہ نہیں کہ آپ ان کے لیے سود کی رقم استعمال کرسکتے ہیں۔یہ تو ایک طر ح سے آپ خود ہی اس رقم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ رقم کسی خیراتی مقصد کے لیے استعمال کر لی جائے۔سود کی رقم اصل میں سوسائٹی کا حق ہوتا ہے جو اس سے چھینا جاتا ہے وہ اسی کو لوٹاناچاہیے۔
(شہزاد سلیم)
جواب۔ انعامی بانڈ سے حاصل کردہ رقم از روئے اسلام جائز نہیں۔جب آپ انعامی بانڈ خریدتے ہیں تو اصل میں آپ حکومت کو رقم قرض دیتے ہیں اور حکومت اس پر آپ کوسود ادا کرتی ہے۔وہ سود سب لوگوں کو ملنے کے بجائے چند لوگوں کو اکٹھا کر کے دے دیا جاتا ہے اور اس کو انعام کا نام دے دیا جاتاہے لیکن اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔
اس کے علاوہ اس میں جوئے کی قباحت بھی موجود ہے کیونکہ اس میں آپ محنت کے بغیر صرف قسمت اور چانس پر انحصار کرتے ہیں۔
(شہزاد سلیم)
ج: انشورنس کے حوالے سے یہ گزارش ہے کہ بیمہ پالیسی میں فی نفسہ تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اِس کا سارا نظام چونکہ سود پر مبنی ہے، اِس وجہ سے اِسے اختیار کرنا درست نہیں ہے۔ اِس کی ملازمت کا بھی وہی معاملہ ہے ، جو مثلاً بنک میں ملازمت کا معاملہ ہے۔آدمی کو اِس سے بچنے ہی کی کوشش کرنی چاہیے۔
پرائز بانڈ سکیم صریح سود ہے ۔ اِس میں جس چیز کو پرائز کہا جاتا ہے، وہ دراصل، وہ سود ہوتا ہے، جو قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کیا جاتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: لوگ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے نفع نقصان میں شرکت کی ہے ۔لیکن حقیقت میں تو بس نام ہی تبدیل ہوا ہے ۔ہر آدمی جوبینکنگ کو جانتا ہے اسے اس کی حقیقت اچھی طرح معلو م ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)