شرک

جواب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر ‘‘السلام علیکم یا ایھاالنبی’’ کہنا ہرگز شرک نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: دونوں میں آدمی بے وفائی کرتا ہے ایک میں خدا سے کرتا ہے اور دوسرے میں بیوی سے کرتا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: شرک کی حقیقت واضح کرنے کے لئے وہی استدلال اپنانا چاہیے جو قرآن مجید نے شرک کے بارے میں اپنایا ہے اوروہ ایک سادہ سی بات ہے کہ اس کائنا ت کا او رخود انسان کا وجود عقلی تقاضا کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہونا چاہئے ۔ مشرک کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کائنا ت کے خالق کو نہیں مانتا ۔وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہے مگر اس نے اپنے اختیارات منتقل کر دیئے ہیں۔ قرآن نے اس پر سادہ سوال کیا ہے کہ اختیارات اللہ نے منتقل کئے ہیں ۔تواللہ کی سند دکھاؤ۔ اختیارات منتقل کرنے والا خدا ہے۔آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے یہ صلاحیت دے دی ہے ،فلاں کو یہ اختیار دے دیا ہے ۔ اولاد لینی ہے تو فلاں کے پاس جانا ہے ۔ دولت لینی ہے تو فلاں دیوی کے پاس جانا ہے یا فلاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہونا ہے ۔جب آپ یہ کہہ رہے ہیں تو گویایہ بات آپ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ اختیار دینے کا معاملہ تو ہر حال میں اختیار دینے والے کی سند سے ثابت ہو گا۔تو قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ سند از راہ کر م پیش کرو۔یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں کو اختیار دیا ہے ۔تو بتا دیجئے کہ کہاں دیا ہے؟کیا کسی الہامی کتا ب میں یہ لکھا ہوا ہے یا کسی پیغمبر نے آپ کو بتایا ہے ہا تو برہانکم ان کنتم صادقین...اگر سچے ہو تو کوئی سند لے آؤ۔یہ سادہ استدلال ہے۔ شرک کے حق میں تو کوئی بات کہی نہیں جاسکتی ۔ شرک کے معنی کیا ہیں ۔شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں، صفات میں ،حقوق میں کسی کو شریک کرنا۔تو یہ شرکت یا تو اللہ نے اس کو بخشی ہے یا نہیں بخشی۔بخشی ہے تو اللہ ہی بتائے گا کہ میں نے بخشی ہے۔میں نہیں بتا سکتا ۔یا کوئی اور نہیں بتا سکتا ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے جو گورنر مقرر کیا ہے فلاں صاحب کو وہ پروانہ تقرر مجھے دکھا دو۔بس بات ختم۔

(جاوید احمد غامدی)

ج : ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے کسی خاص گروہ نے اپنے آپ کو شرک کے ساتھ عقیدے کی سطح پر وابستہ کر رکھا ہے اور باقی اُس سے دور ہیں۔ مسلمانوں کا تو کوئی گروہ بھی اپنے آپ کو شعوری طور پر شرک کے ساتھ منسلک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ مسلمان فرد ہو یا جماعت شرک کے تصور سے بھی نفر ت اُن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ لہذا، یہ بات واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں شرک اگر پایا جاتا ہے تو وہ خوبصورت مذہبی تصورات کے لبادے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ سینکڑوں مسلمان اُس سے دھوکہ کھا کر اسے اپنالیتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اُن میں سے کون کون اپنی نفسیات اور اپنی ذہنیت کے اعتبار سے مشرک ہے۔ میں اِس بات کو تھوڑا سا واضح کرنا چاہتا ہوں۔ مشرک کی مثال چھنال عورت سے دی گئی ہے۔ جو خود کو اپنے خاوند تک محدود نہیں رکھتی، حالانکہ وہ اپنے خاوند کے حبالہ عقد میں ہے، اُس سے اپنے نان نفقہ کا مطالبہ کرتی ہے، لیکن وہ خاوند کے خاص حقوق میں دوسروں کو بھی شامل کرنا بالکل صحیح سمجھتی ہے اور پھر شامل کرتی بھی ہے۔ یہ عورت اپنی ذہنیت، اپنی نفسیات اور اپنے عمل میں ایک چھنال عورت ہے۔ اسی طرح مشرک وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی ذہنیت اور اپنی نفسیات میں صرف ایک خدا ہی کو اپنا خدا ماننے پر قانع نہیں رہتا ، بلکہ اوروں کو بھی خدا کے ساتھ شریک کرتا ہے۔ اُس کے نزدیک، خدا کے خاص حقوق کوئی ضروری ہے کہ صرف خدا ہی کو دیے جائیں۔ اُس کے خیال میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ سجدہ خدا کو بھی کیا جائے اور غیر خدا کو بھی، دل میں جو حیثیت خدا کو دی جائے وہی غیر خدا کو کیوں نہ دی جائے ۔ آخر اِس میں کیا حرج ہے کہ خدا کی اطاعت بھی کر لی جائے اور غیر خدا کی بھی۔ یہ ہے مشرکانہ ذہن۔ الحمد للہ مسلمانوں میں شرک کے اِس طرح کے اقرار کے ساتھ کوئی مشرک نہیں پایا جاتا۔ مسلمانوں کے ہاں جو شرک پایا جاتا ہے، وہ بہرحال، توحید ہی کے لبادے میں ہوتا ہے یا توحید ہی کے واضح اقرار کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص جو مسلمان دکھائی دیتا ہے، وہ درحقیقت، کسی کریہہ شرک میں مبتلا ہو، وہ پوری طرح سے مشرکانہ ذہنیت اور مشرکانہ نفسیات رکھتا ہو اور خدا کے ہاں جب وہ اٹھایا جائے ، تو پکے مشرک کی حیثیت سے اٹھایا جائے۔ لیکن آپ بتائیے ،اگر بالفرض وہ اِس دنیا میں اپنا عقیدہ جب بھی بیان کرنے بیٹھے، تو اُس کی ابتدا کلمہ طیبہ سے کرے اور انتہا کلمہ شہادت پر کرے، تو ہم اُسے مشرک کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اُس کی فلاں فلاں بات مشرکانہ ہے اور اُس کا فلاں فلاں عمل مشرکانہ ہے۔ لیکن اُس کے عقیدے کے بارے میں آپ بتایئے ہم توحید کے علاوہ اور کیا بیان دیں۔چنانچہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کسی ایسے گروہ یا شخص کو ہم نہ ‘ مشرک’ کہہ سکتے ہیں، نہ ‘مشرک مسلمان’ ، کیونکہ ہمارے پہلے بیان (مشرک)کے لیے اُس کی زبان سے خالص شرک کا اقرار ضروری ہے اور دوسرے بیان (مسلمان مشرک)کے لیے اُس کا زبان سے شرک اور توحید دونوں کا اقرار ضروری ہے۔ جب تک یہ بیان میسر نہ ہوں اور کلمہ شہادت اور کلمہ توحید کا اقرار موجود ہو، ہم اُسے مسلمانوں ہی میں شمار کریں گے، البتہ اُس کے غلط (شرکیہ)اعمال اور اُس کی غلط (شرکیہ) باتوں سے خود بھی بچیں گے اور اُسے بھی بچنے کو کہیں گے۔

            ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، جب تک کہ وہ صحیح نماز پڑھتے ہیں، البتہ اگر اُن کے دوسرے شرکیہ اعمال کی وجہ سے جی نہ چاہے ، تو اُن کے ساتھ نماز پڑھنے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔

            جو شخص دل سے مسلمان اور موحد ہے ، وہ اُس حقیقی شرک کو ،جومیں نے اوپر بیان کیا ہے ، شعوری طور پر ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اپنا سکتا۔اور جو شخص مشرکانہ ذہنیت رکھتا ہے، وہ اپنی اِس ذہنیت کے ساتھ ایک لمحے کے لیے بھی حقیقی مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ البتہ یہ بات ہو سکتی ہے کہ ایک آدمی کسی مشرکانہ بات یا مشرکانہ عمل کو اپنی کم علمی کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ تک توحید ہی کی بات یا توحید ہی کا عمل سمجھتا رہے، لیکن اِس صورت میں یہ آدمی اپنی ذہنیت ،اپنی نفسیات اور اپنے داخل کے اعتبار سے مشرک شمار نہیں ہو گا، کیونکہ اِس نے کسی شرکیہ عمل کو اگر اپنایا ہے تو محض اِس لیے کہ اُسے وہ عینِ توحید محسوس ہوا ہے، ورنہ وہ اُسے ہرگز نہ اپناتا۔ ہاں عمل کے اعتبار سے بے شک یہ مشرکانہ عمل میں پڑا ہوا ہے۔اِس کی دلیل اور مثال سورۃ جن میں جنوں کا یہ قول ہے :‘‘ اور یہ کہ ہمارا یہ بے وقوف (سردار )اللہ کے بارے میں حق سے ہٹی ہوئی (شرک کی)باتیں کہتا رہا ہے، اور یہ کہ ہم نے گمان کیا کہ انسان اور جن خدا پر ہرگز کوئی جھوٹ نہیں باندھ سکتے۔ ’’ (الجن۷۲: ۴،۵)

             اللہ کے رسولؐ نے بے شک ہم تک توحید کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا تھا۔اب اگر انسان اِس مسئلے میں ٹھوکر کھاتا ہے تو یہ انسان کا قصور ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج :وہ شرک جو ناقابل معافی ہے وہ عقیدے کا شرک ہے۔ تکبر اور ریا شرک نہیں بلکہ یہ شرکیہ اعمال ہیں۔ ایک مومن سے ان کا صدور ممکن ہے۔لیکن یہ اعمال اگر کسی شخص کی نفسیات پر چھا جائیں اور اُس کی شخصیت کو ایک متکبر کی شخصیت بنا دیں یا ایک ریا کار کی شخصیت بنا دیں تو پھر معاملہ مختلف ہو گا۔ایسے شخص کا حقیقی مومن رہنامحال ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب: شرک کی حقیقت واضح کرنے کے لئے وہی استدلال اپنانا چاہیے جو قرآن مجید نے شرک کے بارے میں اپنایا ہے اوروہ ایک سادہ سی بات ہے کہ اس کائنا ت کا او رخود انسان کا وجود عقلی تقاضا کرتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہونا چاہئے ۔ مشرک کا معاملہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ کائنا ت کے خالق کو نہیں مانتا ۔وہ یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہے مگر اس نے اپنے اختیارات منتقل کر دیئے ہیں۔ قرآن نے اس پر سادہ سوال کیا ہے کہ اختیارات اللہ نے منتقل کئے ہیں ۔تواللہ کی سند دکھائو۔ اختیارات منتقل کرنے والا خدا ہے۔آپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ فلاں کو اللہ نے یہ صلاحیت دے دی ہے ،فلاں کو یہ اختیار دے دیا ہے ۔ اولاد لینی ہے تو فلاں کے پاس جانا ہے ۔ دولت لینی ہے تو فلاں دیوی کے پاس جانا ہے یا فلاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہونا ہے ۔جب آپ یہ کہہ رہے ہیں تو گویایہ بات آپ اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں ۔ اختیار دینے کا معاملہ تو ہر حال میں اختیار دینے والے کی سند سے ثابت ہو گا۔تو قرآن مجید کہتا ہے کہ وہ سند از راہ کر م پیش کرو۔یعنی اللہ تعالیٰ نے فلاں کو اختیار دیا ہے ۔تو بتا دیجئے کہ کہاں دیا ہے؟کیا کسی الہامی کتا ب میںیہ لکھا ہوا ہے یا کسی پیغمبر نے آپ کو بتایا ہے ہا تو برہانکم ان کنتم صادقین۔۔۔اگر سچے ہو تو کوئی سند لے آئو۔یہ سادہ استدلال ہے۔ شرک کے حق میں تو کوئی بات کہی نہیں جاسکتی ۔ شرک کے معنی کیا ہیں ۔شرک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں، صفات میں ،حقوق میں کسی کو شریک کرنا۔تو یہ شرکت یا تو اللہ نے اس کو بخشی ہے یا نہیں بخشی۔بخشی ہے تو اللہ ہی بتائے گا کہ میں نے بخشی ہے۔میں نہیں بتا سکتا ۔یا کوئی اور نہیں بتا سکتا ۔اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں نے جو گورنر مقرر کیا ہے فلاں صاحب کو وہ پروانہ تقرر مجھے دکھا دو۔بس بات ختم۔

(جاوید احمد غامدی)