جواب:آخرت میں اس کی معافی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ دنیا میں آدمی لازماً سزا پا چکا ہو، بلکہ محض سچی توبہ اور اصلاح سے بھی یہ آخرت میں معاف ہو سکتا ہے۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب:شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی سے بھی جنسی تعلق قائم کرنا زناہی ہے اور بے شک یہ گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ:''اور جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو سوائے حق کے ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو کوئی یہ کام کرے گا، وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اْس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ سوائے اس کے کہ کوئی(ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔''(الفرقان)
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ بے شک زنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی سزا جہنم کا ابدی عذاب ہو سکتی ہے، لیکن اگر اللہ چاہے تو یہ سچی توبہ اور اصلاح سے بالکل معاف بھی ہو سکتا ہے۔
جواب: یہ سوال ایک اصولی حقیقت کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میں اپنی بات کو مثال سے واضح کرتا ہوں۔ اخبارات میں آئے دن مقدمات کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ آپ انتظامیہ سے متعلق ہیں اور آپ قانونی پروسیجر ،دفعات اور اخبارات کی خبروـں میں فرق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان خبروں سے قانونی ضوابط کو متعین کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدمات کے فیصلوں سے متعلق روایات واقعات کا محض جزوی بیان ہیں۔ راوی نے معلوم نہیں واقعے کے کن اہم پہلوؤں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ زنا کی سزا قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح حرابہ کی سزا بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہم ذرہ برابر شبے کے بغیر یہ کہتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون اور انصاف کے سب تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر مجرموں کو سزائیں دی ہیں۔جس مجرم کو حرابہ کی سزا دی گئی ہے وہ یقینا اسی سزا کا مستحق تھا۔ کسی راوی کے بیان سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔ اصولی بات یہ ہے کہ واقعات سے قانون اخذ کرنا درست نہیں۔ قانون کی روشنی میں واقعات کو سمجھا جائے گا۔
(مولانا طالب محسن)
جواب: دونوں میں آدمی بے وفائی کرتا ہے ایک میں خدا سے کرتا ہے اور دوسرے میں بیوی سے کرتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)