حکم ربانی
وَلاَ تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا. (الاسراء ۱۷:۳۷)‘‘اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔’’
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ.(القصص۲۸:۸۳)
‘‘یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائی چاہتے ہیں اور نہ فساد اور اچھا انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔’’
فرمانِ نبوی
‘‘الااخبرکم باھل النار؟ کل عتل جواظ مستکبر’’(صحیح بخاری، کتاب التفسیر و صحیح مسلم، کتاب الجنۃ ، باب النار یدخلھا الجبارون)
‘‘کیا میں تمھیں جہنمیوں کی خبر نہ دوں؟ ہر سرکش، بخیل اور متکبر جہنمی ہے۔’’
‘‘قال اللّٰہ عزوجل: العزا زاری، والکبریاء ردائی، فمن یناز عنی عذبتہ’’(صحیح مسلم، کتاب السر، باب تحریم الکبر)
‘‘اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ عزت میرا پہناوا ہے اور بڑائی میری چادر ہے پس جو بھی ان میں سے کوئی ایک چیز بھی مجھ سے کھینچے گا میں اسے عذاب دوں گا۔’’
(جاوید احمد غامدی)
جواب: دوسروں کی تحقیر کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا سمجھنا تکبر ہے۔ کسی واقعی خوبی اور فضیلت کی بنیاد پر اپنے کو بعض ایسے لوگوں سے بہتر سمجھنا جو وہی خوبی یا فضیلت یا تو سرے سے نہیں رکھتے یا مقابلتاً کم رکھتے ہیں، ممکن ہے کہ نا مناسب تو ہو مگر تکبر نہیں ہے۔ تکبر کا ایک لازمی جزو دوسروں کو حقارت سے دیکھنا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے: ‘‘الکبر بطر الحق وغمط الناس’’ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)یعنی تکبر یہ ہے کہ آدمی جانتے بوجھتے حق بات کو رد کرے اور لوگوں کی تحقیر کرے۔
تکبر کی دو قسمیں ہیں: ایک مطلق اور دوسرے جزوی۔ مطلق تکبر یہ ہے کہ آدمی اپنی واقعی یا فرضی خوبی کی نسبت اللہ کی طرف کیے بغیر دوسروں کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ یہ تکبر شرک اور کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ جزوی تکبر میں آدمی اس خوبی کو اللہ کی دین سمجھتا ہے مگر اس کی روح سے بیگانہ ہو کر اسے دوسروں کی توہین و تحقیر کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ گویا تکبر کی ہر قسم میں دو چیزیں مشترک ہیں: خود کو بڑاجاننا اور دوسروں کی تحقیر، خواہ احساس میں ہو یا عمل میں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: (۱) اللہ کی رضا سے محرومی۔
اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ. (النحل۱۶:۲۳)‘‘بے شک وہ (یعنی اللہ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔’’
(۲) جہنم میں ہمیشگی کا عذاب۔
قِیْلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ. (الزمر۳۹:۷۲)‘‘(اللہ کا) حکم ہو گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے۔ وہ کیا برا ٹھکانا ہے متکبر لوگوں کا۔’’نبی کریم ﷺنے بھی فرمایا ہے کہ متکبر جہنم کا ایندھن بنیں گے اور یہ کہ جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت سے محروم رہے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ج ۴،ص ۳۰۶)
(۳) لوگوں کی نفرت کا نشانہ بننا کیونکہ متکبر کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: آدمی کو مسلمان ہوتے ہوئے بھی تکبر کی یہ بدترین قسم پیش آسکتی ہے۔ ایک مسلمان اس تکبر میں اس طرح مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ احساس تقریباً غائب ہو جاتا ہے کہ اس کی حقیقی یا مزعومہ خوبیاں اللہ کی دین ہیں، تاہم عقلی طور پر وہ اس کا انکار نہیں کرتا۔ مرض کی اس صورت میں مریض کو ایسے ماحول یا ایسے آدمیوں کی تفصیلی صحبت اختیار کرنے کا مشورہ دیا جائے گا جو ان امور میں، جن کی بنیاد پر تکبر پیدا ہوتا ہے، اس سے بڑھے ہوئے ہوں، مثلاً ایک شخص اس بات پر تکبر میں مبتلا ہو کہ وہ بہت ذہین یا طاقتور ہے تو اسے ایسے اشخاص کے پاس بھیجا جائے گا جو اس سے کہیں زیادہ ذہین اور طاقتور ہوں۔ اس طرح اس کا اپنے بارے میں یقین جو دعویٰ بن گیا ہے، متزلزل ہو جائے گا۔ پہلے قدم پر یہی تزلزل درکار ہے۔ اسی سے فائدہ اٹھا کر اسے یہ باور کرایا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا کوئی ذریعہ عطا نہیں فرمایا جس کی بنیاد پر ہم اپنی کامل فضیلت کا کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں۔ آگے کا معالجہ ان شاء اللہ تعالیٰ ان دو اقدام کے بعد خود بخود ہوتا جائے گا۔
ایک بات ملحوظ رہے کہ بعض لوگوں میں جو یہ مشہور ہے کہ متکبر کا علاج یہ ہے کہ اس کی تحقیر کی جائے تو یہ ہر صورت حال میں کارگر نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات تحقیر سے تکبر بڑھتا ہے، کم نہیں ہوتا۔ ہاں! اسی طرح کا علاج اس تکبر میں موثر ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے انکار تک جا پہنچا ہو۔ اس میں تحقیر ہی واحد راستہ ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: دنیا میں ہر برائی سمجھانے سے ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن سمجھانے کے بھی کئی مدارج ہوتے ہیں۔ تکبر میں جس طرح کا سمجھانا درکار ہے وہ یہ ہے کہ اونٹ کو پہاڑ تلے لے آیا جائے یعنی اسے ایک ٹھوس تقابل میں ڈال دیا جائے جس کے نتیجے میں اس کے پاس سوائے اعتراف کمتری کے کوئی اور راستہ نہ رہے۔ یہی تکبر کے تمام معالجوں کی بنیاد ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یقینا کسی بھی معالجے کی کامیابی کی سطح برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اور یہ مختلف تدابیر کا تقاضا کرتا ہے۔ تکبر کے علاج کی تاثیر کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے لیے چار طرح کے اعمال کی پابندی مفید اور موثر ہے۔
(۱) جماعت کی اس طرح پابندی کی صف میں اپنے قریب والے نمازی سے بالکل جڑ کر کھڑے ہونے کی عادت ڈالی جائے۔
(۲) وہ قرآنی آیات جو اللہ تعالیٰ کے جلال و کبریائی کا اظہار کرتی ہیں انھیں تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور ان میں سے بعض کو اپنا ورد بنایا جائے۔
(۳) کثرت تسبیح و تحمید تاکہ علاج میں ایسا مبالغہ بھی نہ ہو جائے کہ آدمی اپنی واقعی خوبیوں کا بھی منکر ہو جائے۔
(۴) کثرت استغفار۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: جی ہاں! جزوی تکبر کے ازالے کے لیے بھی وہی سب کچھ کرنا ہو گا جو اوپر بیان ہوا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: جی نہیں! یہ تکبر نہیں ہے کیونکہ متکبر آدمی کسی چیز کی کوشش یا خواہش نہیں کرتا، اسے تو اپنے زعم میں ہر چیز حاصل ہوتی ہے۔ سوال میں بیان کردہ صورت اگر اعتدال کے ساتھ ہو تو فطری ہے لیکن اگر اعتدال کے ساتھ نہ ہو تو حب جاہ کا پیش خیمہ ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: اصولاً تکبر اور حب جاہ میں فرق ہے تاہم حب جاہ اپنی انتہاء کو پہنچ کر تکبر میں ڈھل جاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج :وہ شرک جو ناقابل معافی ہے وہ عقیدے کا شرک ہے۔ تکبر اور ریا شرک نہیں بلکہ یہ شرکیہ اعمال ہیں۔ ایک مومن سے ان کا صدور ممکن ہے۔لیکن یہ اعمال اگر کسی شخص کی نفسیات پر چھا جائیں اور اُس کی شخصیت کو ایک متکبر کی شخصیت بنا دیں یا ایک ریا کار کی شخصیت بنا دیں تو پھر معاملہ مختلف ہو گا۔ایسے شخص کا حقیقی مومن رہنامحال ہے۔
(محمد رفیع مفتی)