ج: اللہ کا ایک قانون اس کے ماننے والوں کے لیے ہے اور ایک قانون اس کے نہ ماننے والوں کے لیے ہے۔ ماننے والوں کے لیے جو قانون ہے وہ بالکل بے لاگ قانون ہے اور اس قانون کا تقاضا یہ ہے کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تقاضے پورے کریں گے تو وہ آپ کو سرفرازی دے گا، یہ اس کا وعدہ ہے۔ لیکن اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ذلیل و رسوا ہوں گے۔ جہاں تک دنیا کی دوسری عوام کا تعلق ہے تو ان کے لیے دوسرا قانون ہے اور وہ قانونِ امہال ہے۔ وہ جتنی سرکشی کریں گے اتنا اقتدار ان کو حاصل ہو گا۔ یہ دونوں قانون قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ کی طرف سے آنے والے خواب بشارت اور خوشی کے ہوتے ہیں اور شیطان کی طرف سے آنے والے خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ اُن میں انسان اپنے نفس کی بعض بڑی ہی مکروہ صورتیں دیکھتا ہے۔ ان کے اندر معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے اس کو دبا دیا ہے، اس کا گلا گھونٹ دیا ہے، وغیرہ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: خواتین تاریخ میں دو طرح کے کام کرتی رہی ہیں۔ ایک وہ کام ہیں جو زیبایش اور آرایش کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اور ایک وہ کام ہیں جو بگاڑ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یعنی ایک بناؤ کے لیے ہوتے ہیں، ایک بگاڑ کے لیے ہوتے ہیں۔اس میں بڑی مشرکانہ رسوم بھی رہی ہیں، مثلاً جسم کے اوپر مختلف قسم کے نام گود لینا، رنگ لگا کر مختلف قسم کے نقوش پیدا کر لینا، اپنے بالوں میں مینڈیاں بنانا اور پھر اس میں لمبے لمبے پراندے ڈال کر عجیب و غریب قسم کی ہیئت بنا لینا۔ بناؤ کی سب چیزیں جائز ہیں اور بگاڑ کی سب چیزیں ممنوع ہیں۔ حدیثوں میں ‘واصلہ، مستوصلہ، واشمہ اور مستوشمہ کے جو الفاظ آتے ہیں،یہ سب اصل میں چہرے کو بگاڑنے والی چیزیں ہیں اور یہ سب مشرکانہ توہمات کے تحت ہوتا تھا۔ یعنی کسی پیر فقیر کے ہاں گئے، انہوں نے کہا کہ اگر سر پر لال پراندہ باندھ لیا جائے تو اولاد ہو گی، اس طرح کی چیزوں کو حضورؐ نے بالکل ممنوع قرار دیا اور کہا کہ ایسا کرنے والوں پر لعنت ہو۔ لوگ ان کا ٹھیک مطلب نہیں سمجھ سکے اور انھوں نے اس طرح کی چیزوں پر ان کا اطلاق کر دیا ۔بناؤ کی سب چیزیں اگر ایک حد کے اندر رہ کر کی جائیں تو جائز ہیں۔ اور جسم، چہرے اور بالوں کو بگاڑنے والی سب چیزیں ممنوع ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آخری سورتیں معوذتین کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک دیا کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض معوذات یعنی اللہ سے پناہ مانگنے کی دعائیں جو حدیثوں میں بھی آئی ہیں، ان کو بھی آپ نے بسا اوقات کسی بیمار پر پڑھ کر پھونک دیا۔ اس وجہ سے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، لیکن وہی چیزیں ہونی چاہییں جن میں کوئی مشرکانہ پہلو نہ ہو۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: عصبیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کوئی ایسا رویہ اختیار کرے جس میں اپنی قوم یا اپنے وطن یا کسی چیزکے بارے میں یہ خیال کرے کہ وہی حق ہے، اسی کی بنیاد پر باطل طے ہو گااور اس چیز کو ہی اپنے لیے زندگی میں ہر چیز کا معیار بنا لے۔
جہاں تک پاکستانی قومیت کی بات ہے تو اس کو مختلف مراحل سے گزر کر ایک جگہ ابھی پہنچنا ہے۔ یہ ملک جب بنا تو ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہلے پاکستان نام کا کوئی ملک موجود تھا یا اس خطے کو کوئی غیر معمولی طریقے سے وحدت حاصل تھی۔ سندھ کی الگ تہذیب تھی، سرحد کی الگ تہذیب تھی، بلوچستان کی الگ تہذیب تھی، پنجاب کی الگ تہذیب تھی تو یہ ایک ملک بن گیا۔ اس میں اگر تعلیم عام کی جائے، لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے مواقع دیے جائیں، عدل پر مبنی نظام قائم کیا جائے، اُن کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے، اُن کی ثقافت اور کلچر کے خلاف کوئی تعصب پیدا نہ کیا جائے ، اُن کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے ، اپنے معاملات میں جو کچھ وہ چاہتے ہیں، اس کا لحاظ رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک اچھی فضا پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی ثقافت یا پاکستانی کلچر یا پاکستانی قومیت کا شعور بھی لوگوں میں گہرا ہو جائے گا۔ یہ وقت کے ساتھ ہوتا ہے، اس کو مصنوعی طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم پچھلے سارے عرصے میں اس کے خلاف صورت حال پیدا کر رہے ہیں ، اس کو بہتر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کر رہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ان انعامی اسکیموں میں بعض ایسی ہیں کہ جن کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ مثال کے طور پر بعض لوگ اپنی Products بیچتے ہیں، اس کے اوپر کوئی Incentive دے دیتے ہیں تو اس کو علی الاطلاق غلط نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن بہت سی اسکیمیں بالکل جوئے کی طرح کی ہیں۔ اس معاملے میں دو چیزوں کے بارے میں ہمیشہ شعور کو بیدار رکھنا چاہیے۔ ایک یہ کہ آدمی جوئے میں ملوث نہ ہو، دوسرا یہ کہ آدمی سود میں ملوث نہ ہو۔ یہ دونوں چیزیں بالکل ممنوع ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حلم ہمارے نفس کی حدیث ہوتی ہے، یعنی انسان کے اندر جو چیزیں ہیں وہی خواب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ رؤیا عام خواب کو کہتے ہیں یعنی نیند کے عالم میں ہم جو عام مشاہدات کرتے ہیں، اس کو عربی میں رؤیا کہتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایسے تمام مقامات جن پر آپ نذر پیش کرنے کے لیے یا حصول برکت کے لیے کوئی کھانا لے جاتے ہیں۔ نذر صرف اللہ ہی کے لیے مانی جاتی ہے اور برکت کا حصول بھی صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ہوتا ہے۔ اگر آپ نے اللہ کے نام پر کوئی چیز دینی ہے تو اپنے گھر میں ذبح کیجیے اور اللہ کے نام پر دے دیجئے۔ خدا کی ساری زمین اللہ ہی کے لیے خاص ہے اور اگر فرض کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت خاطرِ تعلق کا اظہار کرنا ہے تو ہر جگہ مسجد بنی ہوئی ہے جس کو اللہ اپنا گھر کہتا ہے، وہاں دے آئیے، وہ اللہ کے لیے ہو گا۔ لیکن اگر آپ کسی دوسرے کے ہاں جاتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے ؟
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایسے جانور کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ‘وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ’ (اور تم نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو) جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس کی جان لینے کے لیے آپ کو اذن ہی حاصل نہیں ہوا، اس لیے کہ آپ کون ہوتے ہیں خدا کے نام کے بغیر کسی کی جان لینے والے، لہٰذا وہ جانور بھی حرام ہو گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہمارے ہاں تو لوگ قرض حسنہ سے مراد یہ سمجھتے ہیں کہ جو قرض لے کر واپس نہ کرنے کے لیے لیا جائے، وہ قرض حسنہ ہے۔ جبکہ قرآن مجید میں قرض حسنہ سے مراد اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ یہ میرے اوپر قرض ہے اور میں آدمی کو اس کا بدلہ اور اجر عطا فرماؤں گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: فطری ہدایت سب میں یکساں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو فطرت پر پیدا کرتے ہیں پھر اس کا ماحول اس کو کسی خاص رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ پھر جب وہ شعور کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کرتے ہیں کہ حق اس کے سامنے آئے ۔ اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اُس نے اس کی قدر کی یا اُس کو جھٹلا دیا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جب آپ کسی ایسے گھر مہمان کی حیثیت سے جاتے ہیں تو اس وقت آپ کھا سکتے ہیں۔اس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د واضح فرما دیا تھا۔آپ کے گھر کسی نے گوشت بھیجا تو کسی نے آپ کو بتایا کہ جس بندے نے یہ گوشت بھیجا ہے اس کے پاس یہ صدقہ آیا تھا اور آپ کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ صدقے کا گوشت اس کے ہاں آ چکا ہے ۔ ہمارے لیے تو اب یہ ہدیہ ہے، جو ایک پڑوسی کی طرف سے آیا ہے۔ البتہ احتیاط کے لحاظ سے اگر آپ اجتناب کر سکیں تو اچھی بات ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ریشم اور سونا اصل میں اسراف بھی ہے اور دولت کی نمایش بھی۔ لہٰذا اس طرح کے تمام لباس اور چیزیں مردوں کے لیے تو بالکل ممنوع ہیں ۔ عورتوں کے لیے بھی ممنوع ہی ہیں، البتہ ان کو اتنی اجازت ہے کہ وہ اپنی آرایش کی ضرورتوں کے لیے پہن لیں۔ اسلام آپ کو ایک سادہ زندگی اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے، جس میں نہ فضول خرچی ہو، نہ دولت کی نمایش ہو۔ یہی چیز ہے جو معاشرے کے اندر انصاف، محبت، تعلقِ خاطر اور دوسرے چھوٹے لوگوں کے لیے ایک سہولت پیدا کرتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید نے جہاں جہاں تورات اور انجیل کا حوالہ دیا ہے، وہاں ظاہر ہے کہ تورات اور انجیل کے وہ مقامات سامنے لائے جائیں گے۔ سورۂ بقرہ کا معاملہ تو یہ ہے کہ اُس میں یہود کی پوری تاریخ سنائی گئی ہے اور اس میں قرآن مجید نے اُن واقعات کی طرف اشارات دیے ہیں، یعنی اجمال کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ اُن کی تفصیل آپ اگر تورات یا انجیل سے بیان کریں تو یہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہ اللہ کی کتابیں ہیں۔ او رجب قرآن کی تائید ان کو حاصل ہو جائے تو پھر ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا کے درمیان بھی درجات ہیں۔ اُن میں سے اللہ تعالیٰ نے کسی کو کسی معاملے میں فضیلت دی ہے اور کسی کو کسی معاملے میں فضیلت دی ہے۔ پھر نبیوں اور رسولوں میں بھی ایک درجے کا فرق ہے۔ انبیا علیہم السلام کا معاملہ عموم کا ہے اور اُن میں سے ایک خاص منصب ہے جس کو اللہ تعالیٰ رسالت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ باتیں قرآنِ مجید میں بڑی صراحت سے بیان ہوئی ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ جمرات اصل میں شیطان کی علامت ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب دنیا میں بھیجا تو اُسی موقع پر ابلیس نے انکار کر کے یہ اعلان کر دیا کہ میں انسان کا کھلا دشمن ہوں۔ یہ دشمنی یا یہ جنگ اصل میں شیطان اور انسان کے مابین اس دنیا میں قیامت تک جاری رہے گی۔ اس جنگ کو حج میں Symbolize کیا گیا ہے۔ یعنی علامت کے طور پر تین ستون بنا دیے گئے ہیں اور ان علامتوں کو شیطان سمجھ کر سنگ باری کی جاتی ہے۔ یہ ہماری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہوتا ہے اور اُس پر لعنت بھی ہوتی ہے، اس بات کی یاددہانی کے لیے کہ دنیا کی زندگی میں بھی انسان کو شیطان کے خلاف اسی طرح برسرِ جنگ رہنا چاہیے۔ اِن جمرات کو بنایا اس طریقے سے گیا ہے کہ جس میں ایک بڑا ہے اور پھر چھوٹے ہوتے جاتے ہیں۔ یہ اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ شیطان غائب کبھی نہیں ہو گا۔ البتہ یہ ہے کہ جب آپ اس کے اوپر سنگ باری کر دیں گے تو پسپا ہو کر یا چھوٹا ہو کر آپ کے ساتھ رہے گا۔ آپ کا مغلوب ہو کر رہے گا، بالکل ختم نہیں ہو گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دونوں ہی ضروری ہیں۔کوئی دوسرے کامتبادل نہیں ہے ۔آخرت میں یہ معاملہ اس طرح ہو گا کہ حقوق العباد کو پورا کرنے کے لیے جو نیکیاں ہیں وہ بھی میزان میں رکھی ہوں گی اور نماز کو چھوڑنے کے جو گناہ ہیں وہ بھی میزان میں رکھے ہوں گے ۔ اب میزان بتائے گی کہ کون سا پلڑا بھاری ہے ۔ نماز میں کوتاہی بہت بڑا گنا ہ ہے اور حقوق العباد کو پورا کرنا ایک بڑی نیکی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا ورد یہ ہے کہ ‘استعینوا بالصبر والصلوٰۃ’ یعنی ہر معاملے میں نماز کے ذریعے سے اور صبر کے ساتھ قائم رہ کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہو۔ لوگ اس جانب تو توجہ نہیں کرتے، البتہ مختلف ورد پوچھتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ نماز اور سجدے کی حالت میں بندہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ اس میں دعا کیجیے، اللہ قبول کرے گا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ قانون دنیا کے بارے میں نہیں ہے، یہ قانون قیامت کے بارے میں ہے۔ آخرت میں آدمی کو اس کے اعمال کا اجر ملے گا۔ اور اس کا عمل ہی اس کے کام آئے گا۔ دنیا میں تو اللہ تعالیٰ بعض اوقات ہمیں بن مانگے اور بغیر محنت کی بھی دیتا ہے۔ دنیا میں جو ملتا ہے وہ ہماری سعی کا لازمی نتیجہ نہیں ہوتا، وہ انعام کے طور پر بھی ہوتا ہے اور آزمایش کے طور پر بھی ہوتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: آج کل کی رائج جرابوں پر بھی مسح بالکل ٹھیک ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جرابوں کی نوعیت تو تمدن کے ساتھ بدلتی جائے گی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رخصت دی ہے۔آپ اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ضرور اٹھائیے۔ اور حضور ؐ نے ہمیشہ اس طرح کے معاملات میں رخصت پر عمل کرنے ہی کو بہتر قرار دیا ہے۔ اس معاملے میں اصل چیز یہ ہے کہ جب پاؤں اس طرح جرابوں میں بندھے ہوئے ہوں تو پھر اس زحمت سے لوگوں کو بچا لیا جائے کہ وہ وضو کرتے وقت ان کو نہ اتاریں کیونکہ بعض اوقات سردی بھی ہوتی ہے اوربعض اوقات آدمی سفر میں بھی ہوتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کھڑے ہو کر کھانا گناہ نہیں ہے۔ البتہ ہماری تہذیب میں یہ بات پسند کی گئی ہے کہ آپ بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اور سلیقے کے ساتھ کھائیے۔أٓپ اس کا لحاظ کریں گے تو اچھی بات ہے۔ بغیر کسی سبب کے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اس طرح کھائیے کہ جس طرح ایک مہذب آدمی کو کھانا چاہیے، لیکن بعض تقریبات اور موقعوں پر اس کا اہتمام کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے تو اُس موقع پر لوگ کھڑے ہو کر کھا لیتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن مجید میں دو طرح کی ہجرت بیان ہوئی ہے۔ ایک وہ ہجرت ہے جو اللہ کا کوئی پیغمبر اپنی قوم پر اللہ کی حجت پوری کرنے کے بعد کرتا ہے، جس کے بعد قوم پر عذاب آ جاتا ہے۔ یہ ہجرت آخری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور ختم ہو گئی۔ نہ اب کوئی پیغمبر آئے گا، نہ کسی کے ذریعے سے قوم پر حجت تمام ہو گی، نہ اس طرح کی ہجرت کرنے کا کوئی سوال پیدا ہوگا۔ ہجرت کی دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں آپ کے لیے ایمان کے تقاضے پورے کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ آپ کو اپنے ایمان کا اظہار کرنے، نماز پڑھنے اور دین پر عمل کرنے کے لیے جان جوکھم میں ڈالنی پڑے تو اس طرح کی جگہوں پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کسی صاحب ِ ایمان کو نہیں رہنا چاہیے۔ اُس کے پاس اگر ہجرت کی کوئی جگہ ہے تو اللہ پر بھروسا کر کے اس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ہجرت قیامت تک کے لیے باقی ہے اور ہر جگہ جہاں مسلمان رہتے ہیں ان کو اپنے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ اگر ان کے لیے وہاں پر اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے تو پھر اُن کو اُس جگہ کو چھوڑ دینا چاہیے۔
‘جہاد’ بھی قرآن میں دو معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ دین کی دعوت ، جد وجہد اور سرگرمی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرنے کے لیے جہاں یہ استعمال ہوتا ہے، وہاں اس کے کچھ حدود اور کچھ شرائط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد ظلم، عدوان ، زیادتی اور فتنے کے خلاف قیامت تک جاری رہے گا۔ اور جہاں بھی مسلمانوں کے پاس قوت ہو گی وہ ظلم کو مٹانے کے لیے جہاد کر سکتے ہیں۔
‘اقامت ِ دین’ کا مطلب ہے کہ دین کو پوری طرح اختیار کرنا ۔ یعنی دین میں اگر نماز کا حکم ہے تو نماز پڑھی جائے، اگر روزے کا حکم ہے تو روزہ رکھا جائے، اگر کوئی اور ہدایت کی گئی ہے تو اس کی پیروی کی جائے۔ دین پر پوری طرح عمل کرنے کو اقامت ِ دین کہتے ہیں۔
‘شہادت’ کا لفظ بھی قرآن میں کئی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آپ جو عام گواہی دیتے ہیں اس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی طریقے سے آدمی کو جو حق بات کہنا ہوتی ہے اس کے لیے بھی شہادت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے قرآن میں ‘کونوا قوامین بالقسط شہداء للّٰہ’استعمال ہوا ہے۔ ایک شہادت وہ ہے کہ جس کے منصب پر اللہ تعالیٰ کسی کو فائز کر دیتا ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فائز کیا گیا تھا۔ اُس وقت یہ اتمام حجت کے معنی میں ہوتی ہے۔ یعنی کسی گروہ، جماعت یا کسی فرد کو اللہ یہ حیثیت دیتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے دنیا کے اوپر حق واضح ہو جائے۔ جیسے انبیا کے ذریعے سے ہوا، جیسے صحابۂ کرام کے ذریعے سے ہوا۔ اس کے لیے ‘شہادت علی الناس’ کی اصطلاح ہے۔ گویا یہ لوگوں کے خلاف حق کی گواہی ہوتی ہے۔ یہ بھی صحابۂ کرام کے بعد اب ختم ہو گئی ہے۔ کسی اور کا اب یہ مقام نہیں ہے کہ وہ لوگوں میں اس مقام یا منصب پر کھڑا ہو۔
‘اعلائے کلمۃ اللہ’ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بات کو اونچا رکھنے کے لیے آدمی جدوجہد کرے۔
‘اسلام’ کی تعریف خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت بیان کر دی جب جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھا ۔آپؐ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ گواہی دو کہ اللہ تنہا ہے، محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مانو، نماز پڑھو، حج کرو، زکوٰۃ دواور روزے رکھو۔
‘تقویٰ’ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حدود کی پابندی کی جائے۔ ‘احسان’ کامطلب یہ ہے کہ دین میں کیا گیا ہر کام صحیح روح اور صحیح طریقے سے کیا جائے۔ ‘مسلم’ وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے دین کو مانتا ہے۔ ‘مومن’ وہ ہے کہ جو حقیقی ایمان رکھتا ہے۔ ‘اخلاقیات’ سے مراد وہ باتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اچھی باتیں ہونے کی حیثیت سے کرنے کو کہا ہے یا ان کے برے پہلوؤں سے روکا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بات معلوم ہے کہ جادو ایک فن ہے۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے اور قرآن سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ اس فن کا اثرانسانی نفسیات پر ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جو لوگ اس طرح کی باتیں بیان کرتے ہیں ، وہ وہم پرست ہوتے ہیں۔ لوگوں کو توہمات میں مبتلا کرتے ہیں، عام طور پر جھوٹے اور فراڈیے ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنے مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر ایسا کوئی موقع ہو تو اللہ کو یاد کیجیے، نماز پڑھیے اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر نے جو معوذات سکھائی ہیں، وہ پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے رہیے۔ ان چکروں میں مت پڑیں ورنہ دین و ایمان ہر چیز جائے گی اور آپ دنیا میں بالکل ایک وہمی آدمی بن کر رہ جائیں گے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی بر بھروسا کرنا چاہیے، کیونکہ جو چیز ابھی سائنس نہیں بنی، اس کی طرف آپ اگر رجوع کریں گے تو اپنے آپ کو صرف اوہام میں مبتلا کریں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: حلالہ ایک حرام کام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی عورت کو تین طلاقیں ہو چکی ہوں تو سازش کر کے نکاح کیا جائے، جیسا کہ آج کل کے زمانے میں لوگ پیپر میرج کرتے ہیں۔ اس میں ایک سازشی نکاح کر کے عورت کو طلاق دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں قرآن کا قانون یہ ہے کہ جب تین مرتبہ زندگی میں طلاق دے دی گئی تو پھر وہ خاتون کسی دوسری جگہ اپنی آزادنہ مرضی سے شادی کرے، وہاں اگر اتفاق سے اس کو طلاق ہو جائے تب دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کو لوگ ایک سازش کے طریقے پر کرتے ہیں۔ یہ بالکل ناجائز ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس معاملے میں ایک بات اصول کے لحاظ سے سمجھ لیجیے کہ قرآن مجید نے ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ صحیح گھر اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ایک مرد و عورت کے فیصلے سے بنتا ہے۔ اور یہ بات اس طرح بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے لیے جب جوڑا بنایا تو ایک ہی عورت بنائی، ایک سے زیادہ نہیں بنائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی دے دی کہ انسانی فطرت اگر صحیح گھر بنانا چاہتی ہے تو اس کے لیے یہی طریقہ ہو گا۔ اس کے بعد ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانی تمدن کی ضروریات کا مسئلہ ہے۔ یعنی انسان جس طرح اب زندگی بسر کر رہا ہے، ہمیشہ سے ایسے زندگی بسر نہیں کرتا رہا۔ ہم اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر بعض اوقات ماضی کی صورت حال کا صحیح تصور نہیں کر پاتے۔ شہری زندگی میں ہم کو جو سہولتیں میسر ہو گئی ہیں، تمدن میں جو تبدیلیاں آ گئی ہیں، جس طرح منظم حکومتیں وجود میں آ گئی ہیں، یہ چیز پہلے نہیں تھی۔ انسان نے ایک بڑا زمانہ قبائلی تمدن میں گزارا ہے۔ اور عرب میں قبائلی تمدن ہی تھا، وہاں پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نہیں تھی۔ بعض قبیلوں کو ایک نوعیت کا پدر سرانہ اختیار تھا اور قبیلوں کے شیوخ مل کر فیصلہ کر لیا کرتے تھے، لیکن ایسا نہیں تھا کہ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تھی، اس کا کوئی سربراہ تھا، اس کی کوئی پولیس یا فوج تھی۔ لوگوں کو اپنے تحفظ کے لیے قبائلی زندگی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا کہ ان کے زیادہ سے زیادہ اولاد ہو۔ جس آدمی کے پندرہ بیس بیٹے نہیں ہوتے تھے اس کے لیے اس معاشرے میں جینا آسان نہیں ہوتا تھا ۔ آدمی بالکل سقیم ہو کر رہ جاتا تھا۔ مختلف موقعوں کے اوپر اپنی، اپنے ناموس کی اور اپنے جان و مال کی حفاظت نہیں کر پاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو امن کا زمانہ آیا ہے، اس سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں تو یہ ہوتا تھا کہ وہ جو حالی نے کہا ہے کہ ‘‘کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا، کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا’’، اُس میں آدمی اپنی حفاظت کے لیے مجبور ہوتا تھا۔ معمولی سی بات پر کئی سالوں پر محیط جنگیں چھڑ جاتی تھیں۔ کوئی پولیس اور کوئی تھانہ نہیں کہ جہاں سے مدد حاصل کی جا سکتی۔ اپنی حفاظت کا خود بندو بست کرنا ہوتا تھا ۔ سکیورٹی ایجنسیز نہیں تھیں کہ گارڈ لا کے کھڑے کر دیئے جاتے، آدمی کے بیٹے اور اعزہ و اقربا ہی اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ چیز اصل میں عرب میں بے پناہ شادیوں کا باعث بنی۔ اور پھر جب ایک چیز روایت اور رسم بن جائے تو پھر ضرورت کے بغیر بھی عام طور پر یہ بات ہوتی رہی۔ ہر چیز کو اس کے تمدن کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ اُن معاملات کو نہیں چھیڑتا جو تمدنی ضروریات سے پیدا ہوتے ہیں، اگر تو ان میں کوئی بڑا مسئلہ ہے تو اس کو چھیڑنا چاہیے، ورنہ وقت کے ساتھ آپ جب عوامل تبدیل کرتے ہیں تو اس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ حال کو ماضی میں داخل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ آدمی کی بڑی غیر معمولی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، مثال کے طور پر اولاد ایک بہت بڑی ضرورت ہے، تب بھی ایسا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ذرا کوئی بے اولاد آدمی دوسری شادی کر کے دیکھے، اس کی پگڑی پونجی غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی روایات ہی یہ بن چکی ہوئی ہیں۔ یعنی عورت کی تربیت اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ اس کو گوارا ہی نہیں کرتی۔ لیکن عرب کے معاشرے میں یہ چیز نہیں تھی۔ عرب عورتیں تو اس بات پر بڑا فخر کرتی تھیں۔عرب عورتوں کی شاعری پڑھیں تو آپ کو اس کا اندازہ ہوگا۔ وہ تو کہتیں ہیں کہ تمھارا مرد کیا ہے جس نے زندگی میں صرف ایک شادی کی ہے، مجھے دیکھو نو سوکنوں کے ساتھ رہتی ہوں، مرد ہو تو ایسا ہو۔ ہمارے ہاں کی خواتین اس طرح کے جذبات نہیں رکھتیں۔ اس وجہ سے ہر تمدن اور تہذیبی روایت کو ا س کے اندر رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اُس موقع کے اوپر اگر اسلام آکر کوئی ایسی اصلاح کر دیتا کہ جس کے نتیجے میں سارا تمدن ہی درہم برہم ہو جاتا تو یہ اصلاح کرنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اس کی ایک اور مثال دیکھیے اور یہ مثال بڑی عبرت ناک ہے اور تورات میں بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے ۔قرآن مجید نے بھی اس کا حوالہ دیا ہے اور اس واقعہ کی تصدیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کو توفیق دی اور انھوں نے بالکل ویسا ہی خلافت کا نظام قائم کیا جس طرح کے حضور کے بعد قائم ہوا، کسی ملوکیت یا بادشاہت کی بنیاد پر نہیں۔ یعنی حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ جیسے پیوند لگے کپڑے پہننے والے حضرت موسیٰ کے خلیفہ تھے۔ لیکن زیادہ دن نہیں گزرے کہ بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمیں تو بادشاہ چاہیے۔ اس وقت چونکہ نبوت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کے ساتھ نبی کی وساطت سے بات چیت ہو جاتی تھی۔ تو تورات میں اللہ تعالیٰ یہ کہتے ہیں کہ احمقو! دیکھو میں نے تمھیں ایک بادشاہ کی غلامی سے نکالا اور تم پھر اسی طرح کی غلامی اپنے لیے مانگ رہے ہو۔ اگر تم نے بادشاہ بنا لیا تو وہ تمہیں ذلیل کرے گا اور تمہاری بہو بیٹوں کی عزت پامال کرے گا۔ کیا تم یہ چاہتے ہو؟ لیکن وہ اس بات پر بضد رہے کہ ہمیں تو بس بادشاہت چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اصلاح کرنی تھی وہ تو کر دی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اچھی طرح تنبیہ کی اور پھر یہودیوں کی بات مان لی۔ آخر میں یہ کہا کہ ٹھیک ہے میں پھرطالوت کو بادشاہ بنا رہا ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سموئیل نبی نے طالوت کے سر کا مسح کیا اور ان کو بادشاہ بنایا گیا۔ اس طرح ان کے ہاں بادشاہت قائم ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے بادشاہوں میں سے دو بادشاہوں، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت دی۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا۔ یعنی خلفائے راشدین نے ایسی حکومت قائم کہ جس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ اخلاقی لحاظ سے وہ گویا اعلیٰ تصورات کے مجسم ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد کچھ عرصہ گزرا اور ملوکیت قائم ہو گئی۔ کیونکہ دنیا کا ضمیر ابھی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا ضمیر اس کو اتنا قبول کرنے کے لیے تیار ہے کہ اس کی خلاف ورزی کرنی مشکل ہو جاتی ہے۔ انسانی تمدن میں یہ جو تبدیلیاں آتی ہیں، ان کے بغیر اس معاملے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا عربوں کی شادیوں کو آپ ان کے تمدن میں رکھ کر سمجھئے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دین میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک طلاق دی جائے اور اس کے بعد جو عدت کا کم و بیش تین مہینے کا زمانہ ہے، اس کو گزرنے دیا جائے۔ اگر اس کے دوران میں رائے بدل گئی تو آپ رجوع کر لیں۔ اس کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں، رجوع کر لینا ہی کافی ہے۔ اگر تین مہینے گزر گئے تو آپ سے آپ طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور یہ ایک ہی طلاق ہے، اس کے بعد بیوی بھی آزاد ہے اور آپ بھی آزاد ہیں۔ اگر کبھی دوبارہ نکاح کرنے کا خیال ہوتا ہے تو نکاح ہو جائے گا۔ دین میں طلاق دینے کا یہ طریقہ ہے۔ دو طلاقیں دینا، تین طلاقیں دینا، وقفے وقفے سے طلاق دینا، یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ نہ یہ قرآن میں بیان ہوا ہے، نہ یہ پیغمبر نے بیان کیا ہے۔ حضورؐ کے زمانے میں یہ کام بعض احمقوں نے کیا تو آپؐ نے بہت غصے سے یہ کہا کہ میں موجود ہوں اور لوگ اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہیں۔ طلاق دینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ جب بھی طلاق دینی ہو ایک طلاق دیں۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی اور پھر واپس لے لی تو اس کے بعد پھر کبھی زندگی میں لڑائی ہوتی ہے تو آپ کو دوسری مرتبہ طلاق دینے کا ہے۔ دوسری طلاق دے کر بھی آپ نے واپس لے لی تو پھر تیسری طلاق دینے کا حق ہے جو کہ پھر واپس نہیں لی جا سکتی۔ طلاق کا یہ مطلب ہے، یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک ہی دفعہ کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ طلاق، طلاق ، طلاق۔ یہ بالکل احمقانہ بات ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ جو فون پر نکاح کر دیا جاتا ہے اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ اگر والدین نے لڑکے سے اجازت لے لی ہے ۔ تو والد نکاح پڑھ سکتے ہیں یعنی وہ بیٹھ کر اپنی طرف سے یہ کہہ دیں کہ میں نے اپنے بچے کا نکاح اس بچی سے کر دیا اور یہ یہ شرائط میں نے قبول کر لی ہیں۔ اس سے نکاح ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر لڑکا اگر ماننے سے انکار کر دیتا ہے تو وہ تو ٹیلی فون پر نکاح کرنے کے بعد بھی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے ، لیکن اس تکلف کی ضرور ت نہیں ہوتی۔ اب اگر لڑکا دو سال تک پاکستان نہیں آتا تو اس صورت میں بھی نکاح موجود رہے گا۔ اگر معلوم ہوتا ہے کہ نیت میں خرابی پیدا ہو گئی ہے یا اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو گیا ہے تو عورت اگر چاہے تو اس کے نہ آنے کی بنیاد پر نکاح کو فسق کرنے کی درخواست کر سکتی ہے، اس کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: تیمم کا تصور ہمیشہ سے امتوں میں ہونا چاہیے۔ میرا رجحان یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی رہا ہو گا کیونکہ قرآن نے جس طریقے سے خود لفظ تیمم استعمال کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا Concept پہلے سے موجود تھا۔ دنیا میں ایک سادہ اصول یہ ہے کہ جب تک تصور موجود نہ ہو لفظ وجود میں نہیں آ سکتا۔ اس لیے جس طرح سے یہ قرآن میں استعمال ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس کے اصطلاحی مفہوم سے واقف تھے۔ لیکن یہود نے جس طرح دین میں سختیاں پیدا کیں ، اس میں اس معاملے میں بھی ابہام تھا تو قرآن نے اس کو دور کر دیا۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے ہم کو جو ہدایت دی ہے، اُس ہدایت میں کسی دوسرے کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ یہ سب سے بڑا اللہ کا حق ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے معاملے میں جس معاملے میں اس نے ہم کو آزاد چھوڑا ہے اس میں اپنی عقل کو استعمال کریں، اپنے رہنماؤں کی طرف رجوع کریں ، اس میں کوئی قانون بنائیں ۔ انفرادی اور زندگی میں کوئی طریقہ اختیار کریں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو ضابطے اور قونین اپنے دین اور شریعت میں بیان کر دیے ہیں ، اس میں کسی دوسرے کو قابل التفات نہ سجھا جائے۔ اگر آپ اسی کو سامنے رکھ لیں گے تو باقی سب حقوق بھی اس کے اندر آ جائیں گے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بچوں کی پیدایش کے بارے میں ایک اصول ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے اور وہ اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ کام براہ راست نہیں کرتے۔ یہ انسانوں کی وساطت سے کرتے ہیں۔ جو کام انسانوں کی وساطت سے ہوتے ہیں ان کے لیے عقل استعمال کرنا واجب ہے۔ یعنی ایک کسان اپنے کھیت میں فصل بوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ‘ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَہُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ’ یعنی تم نہیں بوتے، ہم بوتے ہیں، تم نہیں اگاتے، ہم اگاتے ہیں۔ اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں، لیکن اس کے بعد کسان کیا ان سب باتوں کے بغیر ہی بوتا چلا جائے کہ وہ کھیتوں میں جائے اور جانے کے بعد نہ زمین تیار کرے، نہ اس کی زرخیزی دیکھے، نہ اس کو وقفہ دے، نہ اس کے معاملات دیکھے کہ فصل کی کاشت کس طرح ہونی ہے، آگے بکنی کہاں ہیں، منڈی میں جانی ہے یا نہیں جانی؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اس کے لیے ان تمام معاملات میں عقل استعمال کرنا واجب ہے۔ اس عقل کو استعمال کرنے کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں؟ ظاہر ہے کہ تمدن کے ساتھ ان میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ مختلف ذرائع وجود پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح بچوں کی پیدایش کا معاملہ ہے۔ آپ اپنی طرف سے جو بھی احتیاط کر سکتے ہیں کر لیں، اس کے بعد خدا جو بھی فیصلہ کر دے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کی حکمت پر اس کی حکمت نے غلبہ پا لیا۔ آپریشن وغیرہ صرف ان صورتوں میں کرانا چاہیے جن صورتوں میں کسی کی جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو یا کوئی اس طرح کا معاملہ ہو کہ کوئی عورت اس بات کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کے معاملات کر بیٹھتے ہیں اور بعد میں اس طرح کی چیزیں ان کے لیے بڑا المیہ بن جاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)