جواب:نہیں استخارے میں خواب کا آنا ضروری نہیں ہے۔ استخارے کے معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلب خیر کی جائے۔ جب آپکے سامنے دو کام ہیں دونوں جائز ہیں یہ نہیں ایک جائز ہواور دوسرا ناجائز کہ سودکھاؤں کہ نہ کھاؤں اور استخارہ کرنے لگے یہ استخارہ نہیں ہوگا استخارہ وہاں ہو گا جہاں دو جائز کا م درپیش ہوں اور انتخاب میں مشکل پیش آرہی ہو مثلاً مکان خریدنے کا پروگرام ہے اور دو مکان مل رہے ہیں اور آپ کے لئے دونوں میں سے ایک کا منتخب کرناہے کہ کون سا اچھا ہے تو استخارہ کر لیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میرے لئے جو اچھا ہے اس کو میرے لیے آسان کر دے تو جو خیر ہوگی اللہ تعالیٰ اس کو آسان کر دے گا ۔خواب کا آنا کو ئی ضروری نہیں ہے
()
ج: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ کی طرف سے آنے والے خواب بشارت اور خوشی کے ہوتے ہیں اور شیطان کی طرف سے آنے والے خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں۔ اُن میں انسان اپنے نفس کی بعض بڑی ہی مکروہ صورتیں دیکھتا ہے۔ ان کے اندر معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے اس کو دبا دیا ہے، اس کا گلا گھونٹ دیا ہے، وغیرہ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: خواب کی تعبیر صرف اسلامی احکام و مسائل کے ماہر سے کرانی چاہیے اور دینی تعلیمات کے خلاف تعبیر کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)
جواب۔ خواب شریعت میں نہ کوئی اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ کمی، اور نہ اب ختم نبوت کے بعد وہ دینی معلومات کا کوئی مستند ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
(محمد رفیع مفتی)
جواب: یہ تو میں نہیں جانتا کہ انسان کا لا شعور سوتے میں کیسے کام کرتا ہے کیونکہ اس معاملے میں جو بھی تحقیقات ہوئی ہیں وہ ابھی اس راز کو آشکار نہیں کر سکیں۔ لیکن لاشعورکام بہر حال کرتا ہے ۔ پچھلی صدی میں جو بڑے ماہرینِ نفسیات گزرے ہیں انہوں نے خوابو ں کا بڑی تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ۔اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوابوں کی کئی صورتیں ہیں ۔ عموماً ہمارا لاشعور تمثیل کی صورت میں چیزوں کو ہمارے سامنے لانا شروع کر دیتاہے۔ہماری بعض یادیں ہوتی ہیں جو تمثیل کی صور ت میں ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقا ت ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص خیال میں غلطان ہوتے ہیں ۔تو اس خیال کی تمثیلی صورتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔یعنی ڈرامائی تشکیل ہو جاتی ہے ۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ انسان کی راہنمائی کے لیے بھی یہ ذریعہ اختیار کرتے ہیں ۔ جیسے سیدنا یوسفؑ کا خواب بیان ہوا ہے۔یاجیسے بادشاہ کا خواب بیان ہوا ہے ۔یہ بھی تمثیلی صورت میں بیان ہوئے ہیں ۔سات دبلی گائیں سات موٹی گائیں ایک دوسرے کو کھار ہی ہیں۔سیدنا یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے سور ج اور چاند میرے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ان تماثیل کاپھر مصداق متعین کرنا ہوتا ہے ۔
بعض نفسیاتی بیماریاں بھی خوابوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔اچھی نیند نہ ہونا بھی اس کی وجہ بن جاتی ہے۔
بعض اوقات آدمی کو خود بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کے خواب اضغاث و احلام ہیں یعنی لا شعور کا کھیل تماشا ہے جو ہم نے دیکھ لیا ہے ۔اور بعض اوقات اسے یقین سا ہوتا ہے کہ اس کا خواب کسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو ایسے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی سمجھدار آدمی سے مشورہ کر لے۔ ممکن ہے کہ وہ کوئی اچھی بات ہی بتا دے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: یہ تو میں نہیں جانتا کہ انسان کا لا شعور سوتے میں کیسے کام کرتا ہے کیونکہ اس معاملے میں جو بھی تحقیقات ہوئی ہیں وہ ابھی اس راز کو آشکار نہیں کر سکیں۔ لیکن لاشعورکام بہر حال کرتا ہے ۔ پچھلی صدی میں جو بڑے ماہرینِ نفسیات گزرے ہیں انہوں نے خوابو ں کا بڑی تفصیل کے ساتھ مطالعہ کیا ہے ۔اور اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوابوں کی کئی صورتیں ہیں ۔ عموماًہمارالاشعور تمثیل کی صورت میں چیزوں کو ہمارے سامنے لانا شروع کر دیتاہے۔ہماری بعض یادیں ہوتی ہیں جو تمثیل کی صور ت میں ہمارے سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بسا اوقا ت ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی خاص خیال میں غلطان ہوتے ہیں ۔تو اس خیال کی تمثیلی صورتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔یعنی ڈرامائی تشکیل ہو جاتی ہے ۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ انسان کی راہنمائی کے لیے بھی یہ ذریعہ اختیار کرتے ہیں ۔ جیسے سیدنا یوسفؑ کا خواب بیان ہوا ہے۔یاجیسے بادشاہ کا خواب بیان ہوا ہے ۔یہ بھی تمثیلی صورت میں بیان ہوئے ہیں ۔سات دبلی گائیں سات موٹی گائیںایک دوسرے کو کھار ہی ہیں۔سیدنا یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے سور ج اور چاند میرے سامنے سجدہ ریز ہیں ۔ان تماثیل کاپھر مصداق متعین کرناہوتا ہے ۔
بعض نفسیاتی بیماریاں بھی خوابوں کا باعث بن جاتی ہیں ۔اچھی نیند نہ ہونا بھی اس کی وجہ بن جاتی ہے۔
بعض اوقات آدمی کو خود بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کے خواب اضغاث و احلام ہیںیعنی لا شعور کا کھیل تماشا ہے جو ہم نے دیکھ لیا ہے ۔اور بعض اوقات اسے یقین سا ہوتا ہے کہ اس کا خواب کسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے تو ایسے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر کسی سمجھدار آدمی سے مشورہ کر لے۔ ممکن ہے کہ وہ کوئی اچھی بات ہی بتا دے۔
(جاوید احمد غامدی)