جی ہندو کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ البتہ ہندو کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ اگر کسی ہندو نے کوئی حلال جانور بھی ذبح کیا تو جائز نہیں ہے، اور حرام ہے۔ چاہے اسے کوئی ہندو پکائے یا مسلمان۔ اگر جانور کو مسلمان نے ذبح کیا اور ہندو نے پکایا تو پھر کھانا جائز ہے۔ کیونکہ ہندو بتوں کے نام سے ذبح کرتے ہیں اور یہ حرام ہے۔ہندو کے پکانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ مثلاً سبزیاں، دالیں، چاول اور باقی سب کھانے ماسوائے ذبیحہ۔ باالفاظ دیگر ہندوؤں کے ذبیحہ کو چھوڑ کر ہندو کے ہاتھ سے بنی ہوئی ہر چیز شرعاً کھانا جائز اور حلال ہے۔
(حافط محمد اشتیاق الازہری)
جواب : احادیث میں پانی پینے کا طریقہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ کوئی شخص برتن میں سانس نہ لے ، بلکہ سانس لیتے وقت اْسے منہ سے ہٹادے ، ایک سانس میں نہ پیے، بلکہ دو یا اس سے زائد گھونٹ میں پیے اورکھڑے ہوکر نہ پیے، بلکہ پیتے وقت بیٹھ جائے۔ پانی بیٹھ کر پیا جائے یا کھڑے ہوکر بھی پیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلے میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں۔حضرت انس اور حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے سختی سے منع فرمایا ہے (مسلم۲۰۲۴) حضرت ابوہریرہ توآپ کے حوالے سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بھول سے کھڑے ہوکر پی لے تو اسے قے کر دینی چاہیے۔ (مسلم:)حضرت علی نے ایک مرتبہ وضو کیا ، پھر بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پیا اور فرمایا : میں نے نبی کریم کواس طرح پانی پیتے دیکھا ہے۔(بخاری:۵۶۱۶)حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پر زمزم کھڑے ہوکر پیا ( بخاری : ۱۶۳۷،مسلم:۲۰۲۷)حضرت عمر وبن شعیب اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کوکھڑے ہوکر اوربیٹھ کر دونوں حالتوں میں پانی پیتے دیکھا ہے۔‘‘ (ترمذی:۱۸۸۳)صحابہ کرام میں سے حضرت عمر، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ بن زبیر، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے کھڑے ہوکر پانی پینا ثابت ہے۔ (موطا امام مالک:۳۹۳۴تا ۳۹۳۸)مذکورہ بالا احادیث میں جواختلاف پایا جاتا ہے اسے علما نے تین طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کھڑے ہوکر پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی احادیث راجح ہیں۔ بعض کے نزدیک ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں۔ تیسرا طریقہ تطبیق کا ہے ، یعنی ممانعت والی احاد یث میں کراہتِ تنزیہی کا بیان ہے ، یعنی کھڑے ہوکر پینا پسندیدہ نہیں ہے ، اس کے برعکس مضمون کی احادیث جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ علامہ نووی نے لکھا ہے :
’’ممانعت اور جواز دونوں طرح کی روایتیں صحیح ہیں۔ ان میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ جن احادیث سے ممانعت کا ثبوت ملتا ہے ، انہیں مکروہ تنزیہی پر محمول کیا جائے اوریہ سمجھا جائے کہ آپ کا کھڑے ہوکر پانی پینا اثباتِ جواز کے لیے ہے۔‘‘ حافظ ابن حجرنے بھی اسی رائے کوترجیح دی ہے۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان)
اس موضوع پر مولانا سید جلال الدین عمری نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے ممانعت اورجوازدونوں پر دلالت کرنے والی احادیث نقل کی ہیں ، ان کی توجیہ کے سلسلے میں علماء کی آرا ذکر کی ہیں۔ آخر میں لکھا ہے : ’’اصل بات یہ ہے کہ کھڑے ہوکر کھانے پینے میں جلد بازی اورعجلت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ متانت اورشائستگی سے ہٹا ہوا ہے۔ اس میں بعض اوقات دوسروں کا حق مارنے کا جذبہ بھی کام کرتا ہے۔ یہ سب باتیں ناپسندیدہ ہیں۔ کھڑے کھڑے کھانا پینا طبی نقطہ نظر سے بھی اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض اوقات اس کی ضرورت پیش آتی ہے ، جیسے مشک یا چھاگل اوپر ٹنکی ہوتی ہو، یا نل کسی اونچی جگہ نصب ہواوران سے براہِ راست پانی پینا پڑے۔ اسی طرح کبھی جگہ کی کمی ہوتی ہے یا بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا۔ کبھی وقت کی کمی ہوتی ہے اورآدمی کھڑے کھڑے کھاپی کر جلد فارغ ہوناچاہتا ہے اوربھی اسباب اس کے ہوسکتے ہیں۔ اسلام نے ان سب باتوں کی رعایت کرتے ہوئے اس معاملے میں سختی نہیں کی ہے ، گنجائش رکھی ہے۔‘‘
جواب: دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے اور کیکڑا مچھلی میں داخل نہیں، لہٰذا کیکڑا حلال نہیں، جھینگے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں؟ جن حضرات کے نزدیک اس کا مچھلی ہونا محقق ہے وہ جائز کہتے ہیں۔ اور جن کے نزدیک مچھلی کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی وہ اسے ناجائز کہتے ہیں، بہرحال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کسی جانب تشدد اختیار کرنا ٹھیک نہیں، اورجھینگا کھانے سے اجتناب کرنا زیادہ مناسب اور احوط ہے: جھینگے کی شرعی حیثیت کے عنوان سے ایک مفصل اور محقق مقالہ فقہی مقالات مولفہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب میں موجود ہے اس کا مطالعہ فرمالیں۔
اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ‘‘یقین شک سے زائل نہیں ہوتا’’، تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:‘‘اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے’’۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ‘‘کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے، اور ماں (مادہ) کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)’’۔
(مفتی منیب الرحمان)
جواب: کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ اور اگر بھول جائے تو یاد آنے پرکھانے کے درمیان بسم اللہ اولہ وآخرہ پڑھنا حدیث شریف سے ثابت ہے (ترمذی شریف)۔ کھانے کے درمیان بسم اللہ، الحمدللہ وغیرہ کی صراحت والی کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری تاہم نعمت خداوندی پر شکرگزاری کی روایات بکثرت ہیں۔ اس لئے اگر بغیر لازم سمجھے کوئی ذکر کرے تو مباح و درست ہے، اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔
(دارالافتا ، دارالعلوم دیوبند )
ج: کھڑے ہو کر کھانا گناہ نہیں ہے۔ البتہ ہماری تہذیب میں یہ بات پسند کی گئی ہے کہ آپ بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اور سلیقے کے ساتھ کھائیے۔أٓپ اس کا لحاظ کریں گے تو اچھی بات ہے۔ بغیر کسی سبب کے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ اس طرح کھائیے کہ جس طرح ایک مہذب آدمی کو کھانا چاہیے، لیکن بعض تقریبات اور موقعوں پر اس کا اہتمام کرنا لوگوں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے تو اُس موقع پر لوگ کھڑے ہو کر کھا لیتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:عصر اور مغرب کے درمیان کھانا کھانے سے نہ تو شریعت نے کہیں منع کیا ہے، اور نہ ہی کوئی صاحبِ عقل اس طرح کی بات کر سکتا ہے۔ یہ جاہلانہ باتیں ہیں جو معاشرے میں مشہور ہو گئی ہیں، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی۔ عصر اور مغرب کے درمیان کھانا پینا جائز ہے۔
(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)