اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ فقہی رائے کا مدار سنی سنائی باتوں پر نہیں ہوتا، بلکہ حقائق و شواہد پر ہوتا ہے۔ مسلَّمہ فقہی قاعدہ ہے: ‘‘یقین شک سے زائل نہیں ہوتا’’، تاہم اگر یہ بات درست بھی ہو تو بھی یہ گائیں حلال ہیں، ان کا گوشت کھانا اور دودھ پینا جائز ہے، کیونکہ جانور کی نسل کا مدار ماں پر ہوتا ہے۔ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں:‘‘اور جو بچہ پالتو مادہ اور وحشی نر کے ملاپ سے پید ا ہو، وہ ماں کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ بچے کے تابع ہونے میں ماں ہی اصل ہے، حتیٰ کہ اگر بھیڑیے نے بکری سے ملاپ کیا، تو ان کے ملاپ سے جو بچہ پیدا ہوگا، اس کی قربانی جائز ہے’’۔ اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمود حنفی لکھتے ہیں: ‘‘کیونکہ بچہ ماں کا جُز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ آزاد یا غلام ہونے میں ماں کے تابع ہوتا ہے (یہ عہدِ غلامی کا مسئلہ ہے)، کیونکہ نر کے وجود سے نطفہ جدا ہوتاہے اور وہ قربانی کا محل نہیں ہے، اور ماں (مادہ) کے وجود سے حیوان جدا ہوتا ہے اور وہ قربانی کا محل ہے، پس اسی کا اعتبار کیا گیا ہے۔ (فتح القدیر، ج: 9، ص: 532)’’۔
(مفتی منیب الرحمان)
جواب: آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ ’’ُاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْل‘‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے‘‘۔ یہ’’ہمارا ذبیحہ کھایا‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔