مسلمان

ج: مسلمانوں کی موجودہ رسوائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دینی تعلیمات پر بھی عمل نہیں کیا اور دنیاوی علوم کے معاملے میں بھی بے احتیاطی کی ۔ اللہ کے قانون میں یہ دونوں چیزیں ایک تواز ن میں لازم ہیں ۔ جتنا ہم دین پر عمل کریں گے اتنی ہی اللہ کی نصرت زیادہ اترے گی ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ اِس دور میں، جب کہ دجالی تہذیب پوری طرح چھا چکی ہے اور شیطان بھی اپنے ہتھکنڈوں میں بہت کامیاب ہے تو ہمارا لائحہ عمل یہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر ممکن حد تک یہ کوشش کریں کہ نہ تو اس تہذیب کا حصہ بنیں اور نہ شیطان کو موقع فراہم کریں کہ وہ ہمیں اپنا آلہ کار بنائے۔رہا یہ معاملہ کہ یہ کیسے ہو گا تو اس کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کو پڑھا کرے اور اکثر پڑھا کرے۔ اُس کا عربی متن بھی اور اُس کا ترجمہ بھی، اور ممکن حد تک اُس کی آیات پر غور و فکر بھی کیا کرے۔ یہاں غور و فکر سے مراد کوئی علمی غور و فکر نہیں ہے، بلکہ وہ غور و فکر ہے جو آدمی کو عمل پر آمادہ کرتا ہے۔مثلاً آدمی اپنی زندگی میں موجود خدا کی نعمتوں پر غور و فکر کرے۔اپنی موت کے دن کو یاد کرے۔ خدا کے حضور پیشی کو دھیان میں رکھے۔ خدا کے عذاب (دوزخ) کو خیال میں لائے اور اُس کے انعام (جنت) کو یاد کرے۔ قرآن مجید کی آیات آدمی کوپے در پے اِن باتوں کی یاد دہانی کراتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آدمی اپنا دل مسجد سے لگائے، کوشش کرے کہ پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جا کر ادا کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ آدمی نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھے، اُن سے نصیحت حاصل کرے اور کوشش کرے کہ اُن جیسی عادات اپنائے۔ یہ سب کرنے سے امید ہے کہ وہ شیطان سے بھی بچا رہے گا اور تہذیبی اثرات سے بھی۔

(محمد رفیع مفتی)

جواب۔ آپ نے پوچھا ہے کہ مسلمان دنیا کے گرم خطوں ہی میں کیوں پائے جاتے ہیں۔ مسلمان اگر دنیا کے ٹھنڈے علاقوں میں پائے جاتے ، تو غالباً آپ کا سوال یہ ہوتا کہ مسلمان دنیا کے ٹھنڈے علاقوں ہی میں کیوں پائے جاتے ہیں؟ اِس کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ قرآن و سنت اپنے اندر کوئی گرمی یاسردی کی تاثیر نہیں رکھتے کہ صرف گرم خطوں ہی کے لوگ اِس کی ہدایت سے فیض یاب ہوں۔ اِس کی وجہ سادہ تاریخی حقائق اور واقعات ہیں۔ مسلمانوں کے زوال کا تعلق قوموں کے عروج وزوال کے قانو ن سے ہے، نہ کہ علاقے سے۔آپ اس وقت ایک قوم کے دورِ زوال اور دوسری کے دورِ عروج میں کھڑے ہیں۔ کبھی بات اِس کے برعکس تھی۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: اللہ کا بندہ بن کر رہنا ، قرآن نے اس کو بیان کر دیا ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: میر ے بچے تمہارے پاس صبر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔اللہ نے بھی صبر ہی کے ذریعے مشکل حالات میں مدد لینے کی تاکید فرمائی ہے یا ایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ۔ساری انسانی تاریخ ایسے واقعات اورتذکروں سے بھری پڑی ہے کہ بڑے بڑے لوگوں پر بے انتہا نامساعد حالات آئے مگر انہوں نے صبرسے کام لیا۔ یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا۔غلام بنا کر بازار میں فروخت کیا گیا۔ان پر زنا کا الزام لگا۔ جیل کی صعوبت برداشت کرنا پڑی۔لیکن آخر کا ر اللہ نے منصب وزارت سے نوازا۔ خود کشی کسی طور بھی جائز نہیں۔جان اللہ کی عطاہے اسے واپس لینے کاحق صرف اسی کوہے وہی اسکا مالک ہے ۔خود کشی کامطلب اللہ کی رحمت سے مایوس ہوناہے اوراللہ کی رحمت سے صرف کافر ہی مایوس ہوتاہے ۔اس لیے آپ صبر سے کام لیں اور نماز پڑھ کر اللہ سے مدد مانگتے رہیں ۔ اللہ جلد ہی آسانی کی کوئی صورت پیدا کرے گا۔

(علامہ یوسف القرضاوی)


جواب: آپ نے جن بڑے بڑے ’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔
جس ملک میں گائے کی پوجا نہ ہوتی ہو اور گائے کو معبودوں میں شامل نہ کیا گیا ہو اور اس کے تقدس کا بھی عقیدہ نہ پایا جاتا ہو، وہاں تو گائے کی قربانی محض ایک جائز فعل ہے جس کو اگر نہ کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن جہاں گائے معبود ہو اور تقدس کا مقام رکھتی ہو، وہاں تو گائے کی قربانی کا حکم ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔ اگر ایسے ملک میں کچھ مدت تک مسلمان مصلحتاً گائے کی قربانی ترک کردیں اور گائے کا گوشت بھی نہ کھائیں تو یہ یقینی خطرہ ہے کہ آگے چل کر اپنی ہمسایہ قوموں کے گاؤ پرستانہ عقائد سے وہ متاثر ہوجائیں گے اور گائے کے تقدس کا اثر ان کے قلوب میں اسی طرح بیٹھ جائے گا جس طرح مصر کی گاؤ پرست آبادی میں رہتے رہتے بنی اسرائیل کا حال ہوا تھا کہ ’’ُاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْل‘‘۔ پھر اس ماحول میں جو ہندو اسلام قبول کریں گے وہ چاہے اسلام کے اور دوسرے عقائد قبول کرلیں،لیکن گائے کی تقدیس ان کے اندر بدستور موجود رہے گی۔ اسی لیے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو میں واجب سمجھتا ہوں اور اس کے ساتھ میرے نزدیک کسی نو مسلم ہندو کا اسلام اس وقت تک معتبر نہیں ہے جب تک وہ کم از کم ایک مرتبہ گائے کا گوشت نہ کھالے اسی کی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جس میں حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ’’جس نے نماز پڑھی جیسی ہم پڑھتے ہیں اور جس نے اسی قبلہ کو اختیار کیا جو ہمارا ہے اور جس نے ہمارا ذبیحہ کھایا وہ ہم میں سے ہے‘‘۔ یہ’’ہمارا ذبیحہ کھایا‘‘ دوسرے الفاظ میں یہ معنی رکھتا ہے کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کے لیے ان اوہام و قیود اور بندشوں کا توڑنا بھی ضروری ہے جن کا جاہلیت کی حالت میں کوئی شخص پابند رہا ہو۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)