ج: حلالہ ایک حرام کام ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی عورت کو تین طلاقیں ہو چکی ہوں تو سازش کر کے نکاح کیا جائے، جیسا کہ آج کل کے زمانے میں لوگ پیپر میرج کرتے ہیں۔ اس میں ایک سازشی نکاح کر کے عورت کو طلاق دی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں قرآن کا قانون یہ ہے کہ جب تین مرتبہ زندگی میں طلاق دے دی گئی تو پھر وہ خاتون کسی دوسری جگہ اپنی آزادنہ مرضی سے شادی کرے، وہاں اگر اتفاق سے اس کو طلاق ہو جائے تب دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کو لوگ ایک سازش کے طریقے پر کرتے ہیں۔ یہ بالکل ناجائز ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حلالہ ایک حرام کام ہے ۔ اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔نبیؐ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتاہے یہ. کرائے کا سانڈ ہے۔اتنے سخت الفاظ میں فرمایا ہے اس لئے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کامذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔
کسی بیوی نے یہ کام کر لیا۔ا ب جو کچھ بھی آپس میں طے کیا اس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔تو قانون اس نکاح کو تو باطل نہیں قرار دیتا ۔اس لئے کہ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اور نیت میں کیا خرابی تھی اس کا فیصلہ وہ قیامت کے دن کرے گا ۔دنیا میں تو معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور کوئی خاونداگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور یہ معلوم کر لینا چاہئے۔کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے کرتو معاملہ نہیں کیا گیا ۔ لیکن فرض کیجئے کہ اس نے پوچھ لیا ۔نیت معلو م کر لی ۔ اس سے جھوٹ بول دیا گیا تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ذمہ داری اس کی ہے جس نے جھوٹ بولا۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: حلا لہ ایک حرام کام ہے ۔ اس کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو حلالے کے لئے پیش کرتاہے یہ۔ کرائے کا سانڈ ہے۔اتنے سخت الفاظ میں فرمایا ہے اس لئے اس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کامذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔
کسی بیوی نے یہ کام کر لیا۔ا ب جو کچھ بھی آپس میں طے کیا اس کا کسی کو علم نہیں ہوا۔تو قانون اس نکاح کو تو باطل نہیں قرار دیتا ۔اس لئے کہ دلوں کے حال اللہ جانتا ہے اور نیت میں کیا خرابی تھی اس کا فیصلہ وہ قیامت کے دن کرے گا ۔دنیا میں تو معاملات ایسے ہی ہوتے ہیں۔اور کوئی خاونداگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اسے ضرور یہ معلوم کر لینا چاہئے۔کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے کرتو معاملہ نہیں کیا گیا ۔ لیکن فرض کیجئے کہ اس نے پوچھ لیا ۔نیت معلو م کر لی ۔ اس سے جھوٹ بول دیا گیا تو اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ذمہ داری اس کی ہے جس نے جھوٹ بولا۔
(جاوید احمد غامدی)