دم کرنا یا کرانا

جواب : ایک صحابیؓ نے اس یقین سے کہ اللہ کی کتاب میں شفا ہے( قرآن پاک میں اس کو شفا کہا گیا کہ فیہ شفاء لما فی الصدور )، پڑھ کر پھونک دیا اور اس قبیلہ کے سردار نے ہدیہ کے طور پر کچھ پیسے بھی دے دیئے اور انہوں نے لے لئے۔ یہ معاوضہ کی بات نہیں تھی کہ انہوں نے پہلے فیس مقرر کی ہو کہ پانچ سو روپے لیں گے اور پانچ سو روپے لیکر پھونک دیا یہ کسی صحابیؓ یا تابعی نے نہیں کیا ۔ اس لیے تحفتاً کوئی دے دے تو حرج نہیں لیکن معاوضہ طے کرنا ثابت نہیں۔
 

()

ج: حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی آخری سورتیں معوذتین کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک دیا کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض معوذات یعنی اللہ سے پناہ مانگنے کی دعائیں جو حدیثوں میں بھی آئی ہیں، ان کو بھی آپ نے بسا اوقات کسی بیمار پر پڑھ کر پھونک دیا۔ اس وجہ سے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، لیکن وہی چیزیں ہونی چاہییں جن میں کوئی مشرکانہ پہلو نہ ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: پامسٹری ابھی علم کے درجے تک نہیں پہنچی ، قیاسات کے درجے تک ہی ہے ۔ اس میں بہت سا کام ہوا ہے ، لوگوں نے اس پر کتابیں لکھی ہیں ، ماہرین بھی ہیں اور مختلف نوعیت کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں لیکن سب کچھ کو پڑھنے کے بعد یہی اندازہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر قیاسات اور قیافے پر مبنی چیزیں ہیں۔شخصیت کے مطالعے کے بعض مفید پہلواس سے مل سکتے ہیں مگر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ خواہ پامسٹری ہو یا کوئی او ر علم جب تک وہ سائنس کے درجے تک نہ پہنچے اس وقت تک اس میں اشتغال نہ کریں۔ورنہ آپ توہم پرست ہو جائیں گے اور یہ بجائے خود ایک بڑی بیماری ہے۔ یعنی آدمی اگر اوہام میں مبتلا ہو جائے تو اس کی عقل معطل ہو جاتی ہے اور پھر وہ اوہام کی بناپر ہی فیصلے کرنے اور رائے قائم کرنے لگ جاتا ہے ۔ ایک زمانے میں اس سے بہت دلچسپی رکھنے کے باوجود میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ ایسا نہ کریں ۔یہ آدمی کے ایمان اور اس کی شخصیت پر برا اثر ڈالتی ہے۔انسان جب اوہام میں مبتلا ہو جائے تو اپنی بہت سی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ انسان کو عقل دی گئی ہے وہ اس کو استعمال کرتا ہے ، اس سے حیرت انگیز کارنامے دکھاتا ہے ۔ اس کو اللہ پر توکل کی تعلیم دی گئی ہے ، وہ اس پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کے ایمان میں بڑھوتری ہوتی ہے۔پامسٹری اس جیسے علوم انسان کی عقل و ایمان کو متاثر کرتے ہیں۔ انسان اگر ان سے متاثر ہو جائے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں اور اچھا عمل بھی انسان نہیں کر سکتا ۔اس کی اپنی صلاحیتیں بھی انہیں اوہام میں سرگرداں ہو کر گزر جاتی ہیں ۔ میں نے بہت سے لوگوں کودیکھا ہے ،جو ایک مرتبہ اس طرح کی چیزوں کا شکار ہو گئے ، وہ پھر معطل ہو کر رہ گئے حالانکہ اچھے بھلے عقلمند لوگ تھے۔ حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اگر ان کو رفع حاجت کے لیے جانا ہو تو پھر بھی ہاتھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ، کہ جائیں کہ نہ ۔یہ چیزیں توہم پرستی کو جنم دیتی ہیں اورایمان و توکل کوکمزور کر تی ہیں اس لیے ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دوسری چیز جو آپ نے پوچھی ہے وہ دم کر نا ہے۔ رسول اللہﷺ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاکہ جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اس میں کوئی مشرکانہ چیز نہیں ہونی چاہیے ۔آپ اللہ سے مدد مانگ کے دم کردیتے ہیں پھونک دیتے ہیں یہ اصل میں اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے ۔قرآن مجید شفا ہے ہمارے دلوں کے روگ دور کرتا ہے ، یہ ٹھیک ہے لیکن یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ قرآن دم کے لیے نہیں آیا اور نہ اس آیت کا یہ مقصد ہوتا ہے ۔اصل میں جب آپ آیت الکرسی پڑھتے ہیں تو آپ توحید کا اظہار کرتے ہیں ۔ توحید کا اظہار یا توحید پر ایمان کا اظہار یہ اصل میں اللہ کی پناہ پکڑنا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ اس کو پڑھنا چاہیے ، قرآن مجید کی آخری دو سورتیں ہیں ان کو اگر دعا کے طور پر آپ پڑھتے ہیں تو یہ بھی بہت عمدہ چیز ہے ۔حضور بھی بعض اوقات پھونک دیتے تھے ۔ آپ نے معوذات پڑھ کے دم کیا ہے ۔یہ چیزیں انسان کو نفسیاتی طور بھی اطمینان دیتی ہیں اور اس کو اللہ کی پناہ میں بھی دیتی ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی مشرکانہ چیز نہ ہو اور یہ ذہن میں ہو کہ قرآن کا اصل مقصد یہ نہیں ہے۔

(جاوید احمد غامدی)