سوال، جواب

مصنف : منہاج القرآن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : دسمبر2017

بیوی کا اپنے نام کے ساتھ بطورِ نسبت شوہر کا نام جوڑنا اور کسی کا اپنی ولدیت تبدیل کرنا دو الگ الگ مسئلے ہیں جبکہ کچھ لوگ مسئلہ کی نوعیت سمجھے بغیر دونوں پر ایک ہی حکم جاری کر دیتے ہیں جو عوام الناس کے لئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہم ذیل میں دونوں موضوعات پر الگ الگ دلائل پیش کر رہے ہیں تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ادْعُوہُمْ لِآبَاءِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاء ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُمْ ۔۔۔۔۔ 
تم اْن (مْنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔(الاحزاب، 33: 5)
آیت مبارکہ میں منہ بولے بیٹوں کو منہ بولے باپ کے نام سے پکارنے کی بجائے اْن کے والد کے نام سے پکارنے کا حکم دیا کیا گیا ہے۔ اور احادیث مبارکہ میں ولدیت تبدیل کرنے والے کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں:
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب منسوب کرے تو اس نے کفر کیا اور جو ایسی قوم میں سے ہونے کا دعویٰ کرے جس میں سے نہیں ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ (بخاری، الصحیح، 3: 1292، رقم: 3317، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامۃ)
جان بوجھ کر ولدیت تبدیل کرنے کا حکم:
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو اپنے باپ کے سوا کسی اور کے متعلق دعویٰ کرے اور وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘
بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6385
مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 63
باپ دادا سے منہ پھیرنے والے کا حکم:
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے آبا ؤ اجداد سے منہ نہ پھیرو، جو اپنے باپ سے منہ پھیر کر دوسرے کو باپ بنائے تو یہ کفر ہے۔(بخاری، الصحیح، 6: 2485، رقم: 6386مسلم، الصحیح، 1: 80، رقم: 62)
باپ کی بجائے غیر کی طرف نسب ظاہر کرنا بھی باعث لعنت ہے:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے باپ کے غیر سے نسب ظاہر کیا یا اپنے آقا کے غیر کو اپنا آقا بنایا تو اس پر اللہ اور اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجہ، السنن، 2: 870، رقم: 2609، بیروت: دار الفکر)
مذکورہ بالا قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کا اظہار کرنے کے لئے اپنی نسبت والد کی بجائے کسی اور کی طرف بطور والد منسوب کرنا حرام ہے جبکہ ولدیت تبدیل کئے بغیر خاص پہچان کے لئے اپنی نسبت کسی ملک، شہر، مسلک، سلسلے، جماعت، ادارے کی طرف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً پاکستانی، عربی، دمشقی، کوفی، حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، قادری، نقشندی، چشتی، سہروردی، شازلی، سلفی دیوبندی وغیرہ سب نسبتیں ہیں جو پہچان کے لئے نام کے ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن ولدیت تبدیل نہیں ہوتی، لہٰذا بیوی کی نسبت بھی پہچان کے لئے اس کے شوہر کی طرف کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا جس کی مثالیں قرآن وحدیث سے ملتی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ۔۔۔۔
اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا ہے نوح (علیہ السلام) کی عورت (واعلہ) اور لوط (علیہ السلام) کی عورت (واہلہ) کی مثال بیان فرمائی ہے۔( التحریم، 66: 10)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی نسبت شوہروں کی طرف کی گئی ہے۔ اور درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضرت آسیہ سلام اللہ علیہا کی نسبت ان کے شوہر فرعون کی طرف کی گئی ہے:
وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔اور اللہ نے اْن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں زوجہِ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے۔التحریم، 66: 11
اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے حاضر ہو کر اجازت مانگی۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! زینب آنا چاہتی ہیں۔ فرمایا کہ کونسی زینب؟ عرض کی گئی:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔بخاری، الصحیح، 2: 531، رقم: 1393
اس موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے نسبت ان کے والد کی بجائے شوہرعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہیں فرمایا کیونکہ یہ نسبت پہچان کے لئے تھی نہ کہ ولدیت تبدیل کرنے لئے تھی۔ اور حضرت عطاء کا بیان ہے کہ ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ سرف کے مقام پر حضرت میمونہ کے جنازے پر حاضر ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔بخاری، الصحیح، 5: 1950، رقم: 4780
جلیل القدر صحابی حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی پہچان کے لئے اْن کے والد کی بجائے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کی، اسی طرح احادیث مبارکہ کی اسناد میں ازواج مطہرات کی نسبت متعدد بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ 
لہٰذا عورت اپنی پہچان کے لیے اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام جوڑ سکتی ہے۔ مذکورہ بالا میں ہم نے واضح کر دیا ہے کہ نسب کے اظہار کے لیے اپنی ولدیت تبدیل کرنا حرام ہے جبکہ کسی عورت کی پہچان کے لیے اس کی نسبت شوہر کی طرف کرنا جائز ہے۔ تحقیق کئے بغیر قرآن وحدیث کی نصوص سے غلط استدلال کرنا اور اسے کفار کا طریقہ قرار دینا علمی خیانت ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اپنے والد کی بجائے کسی اور کو والد ظاہر کرنے کی ممانعت ہے جبکہ بیوی کی نسبت شوہر کی طرف کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔


 

(مفتی محمد شبیر قادری)

نکاح کے معاملہ میں شریعت نے مردو عورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ہے اور والدین کو جبر و سختی سے منع کیا ہے۔ دوسری طرف لڑکے اور لڑکی کو بھی ترغیب دی کہ وہ والدین کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی قدم اٹھائیں۔بہتر یہی ہے کہ والدین کو راضی کر لیں تاکہ آنے والی زندگی میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں، اور خدا نہ کرے کوئی مسئلہ بن جائے تو آپ کو والدین کی حمایت حاصل ہو۔ ان کو شادی میں بھی شامل کریں۔ انہیں قرآن وحدیث کا حکم سنائیں اور دکھائیں کہ شرعی طور پر یہ حکم ہے۔ امید ہے راضی ہو جائیں گے۔ اگر کسی صورت بھی وہ آپ کی پسند کی شادی نہیں کرتے تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن والدین کا احترام کرنا اور ہر صورت ان کی خدمت کرنا آپ کا فرضِ اولین ہے

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

 چونکہ اعمال کا دار و مدار ایمان پر ہے، مسلمان ہو تو نیک اعمال کار آمد اور مسلمان نہ ہو تو نیک اعمال قابل قبول نہیں، دنیا میں کافر کو نیکی کا بدلہ مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کوئی نیک عمل کافر کے نامہ اعمال میں ہے ہی نہیں۔ لہذا وہ ہمارے نیک اعمال تو نہیں لے سکتا لیکن یہ بات ضرور ہے کہ کافر کے ساتھ دھوکہ اس کا مال چوری کرنا وغیرہ گناہ ہے، اگر کوئی مسلمان ایسا کرے گا تو گناہ ہوگا۔ امام حاکم روایت کرتے ہیں کہ جنگ حنین میں ایک صحابی فوت ہو گئے :اس کی وفات کا ذکر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھی پر نماز پڑھو، صحابہ کرام حیران ہوگئے، فرمایا اس نے اللہ کی راہ میں خیانت کی ہے، صحابہ نے اس کے مال کی تفتیش کی تو اس میں ایک نگینہ مل گیا جو کسی یہودی کے مال سے چوری کیا ہوا تھا اور دو درھم کے برابر بھی نہیں تھا۔اس سے اندازہ کرنا چاہیے کہ غیر مسلموں سے بھی فراڈ، دھوکہ دہی وغیرہ ناجائز ہے۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

یہ ایک غلط بات مشہور ہو چکی ہے کہ زوال کے وقت عبادت جائز ہے یا ناجائز۔ اصل میں 24 گھنٹوں میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا اور سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے۔ وہ اوقات درج ذیل ہیں:
1۔ طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے کا وقت۔
2۔ وقت استواء۔ جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے۔
3۔ غروب آفتاب ۔جب سورج غروب ہوتا ہے۔
زوال کا وقت تو وقت استواء کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ معلوم ہوا زوال کے وقت نماز اور سجدہ تلاوت جائز ہے۔ ممنوعہ اوقات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ باقی رہا تلاوت قرآن اور دیگر تسبیحات ہر وقت جائز ہیں۔ ان کے لیے کوئی ممنوع وقت نہیں ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

جی ہندو کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ البتہ ہندو کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز نہیں ہے۔ اگر کسی ہندو نے کوئی حلال جانور بھی ذبح کیا تو جائز نہیں ہے، اور حرام ہے۔ چاہے اسے کوئی ہندو پکائے یا مسلمان۔ اگر جانور کو مسلمان نے ذبح کیا اور ہندو نے پکایا تو پھر کھانا جائز ہے۔ کیونکہ ہندو بتوں کے نام سے ذبح کرتے ہیں اور یہ حرام ہے۔ہندو کے پکانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس کے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا جائز ہے۔ مثلاً سبزیاں، دالیں، چاول اور باقی سب کھانے ماسوائے ذبیحہ۔ باالفاظ دیگر ہندوؤں کے ذبیحہ کو چھوڑ کر ہندو کے ہاتھ سے بنی ہوئی ہر چیز شرعاً کھانا جائز اور حلال ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

ذات باری تعالیٰ حقیقی متصرف اور مسبب الاسباب ہے۔ ظاہری اسباب میں اثرانگیزی پیدا کرنے والی ذات بھی وہی ہے۔ کسی چیز، دن یا مہینے کو منحوس سمجھنا اور اس میں کام کرنے کو بْرے انجام کا سبب قرار دینا غلط، بدشگونی، توہم پرستی اور قابل مذمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی بھی چیز انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نفع و نقصان کا اختیار سو فیصد اللہ کی ذات کے پاس ہے۔ جب وہ خیر پہنچانا چاہے تو کوئی شر نہیں پہنچا سکتا اور اگر وہ کوئی مصیبت نازل کر دے تو کوئی اس سے رہائی نہیں دے سکتا۔کوئی وَقت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ کی نافرمانی کرے۔ درحقیقت اصل نْحوست گناہوں اور بداعمالیوں میں ہے۔
صفر اسلامی تقویم کی ترتیب کا دوسرا مہینہ ہے، جس کا لفظی معنیٰ ’خالی ہونا‘ ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے ’صفر المکان‘ یعنی گھروں کو خالی کرنے کا مہینہ کہتے تھے، کیونکہ وہ تین پے در پے تین حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) کے بعد اس مہینے میں گھروں کو خالی کر کے لڑائی اور قتل و قتال کے لیے میدانِ جنگ کی طرف نکل پڑتے تھے۔ جنگ و جدال اور قتل و قتال کی وجہ بیشمار انسان قتل ہوتے، گھر ویران ہوتے اور وادیاں برباد ہو جاتیں‘ عربوں نے اس بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ کی طرف توجہ دینے، جنگ و جدل سے کنارہ کشی کرنے کی بجائے اس مہینے کو ہی منحوس بلاؤں، مصیبتوں کا مہینہ قرار دے دیا۔ حقیقت میں نہ تو اس مہینے میں نحوست و مصیبت ہے اور نہ ہی یہ بدبختی اور بھوت پریت کا مہینہ ہے بلکہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے مصائب و آفات میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنی جہالت کی وجہ سے دن، مہینے اور دیگر اسباب کو منحوس تصور کرنے لگتا ہے۔ 
ماہِ صفر میں بلائیں اور آفات اترنے اور جنات کے نزول کا عقیدہ من گھڑت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر و تاثیر میں زمانے کو کوئی دخل نہیں، اس لیے ماہِ صفر بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے۔ اگر ایک شخص اس مہینہ میں احکامِ شرع کا پابند رہتا ہے، ذکر اذکار کرتا ہے، حلال و حرام کی تمیز رکھتا ہے، نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا ہے تو یقیناً یہ مہینہ اس کے لیے مبارک ہے، اور دوسرا شخص اس مہینے میں گناہ کرتا ہے، جائز و ناجائز اور حرام و حلال کی تمیز مٹاتا ہے، حدود اللہ کو پامال کرتا ہے تو اس کی بربادی کے لئے اس کے اپنے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے‘ اپنی شامتِ اعمال کو ماہِ صفر پر ڈالنا نری جہالت ہے۔

(مفتی محمد شبیر قادری)

مستند ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس کی ممانعت نہیں ہے۔ تاہم اس بات کا خیال رہے کہ دوائی انسانی صحت کے لیے نقصا ن دہ نہ ہو۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

اگر مرد و خواتین شرعی حدود، اخلاقی آداب اور شرم و حیاکا خیال رکھیں تو مرد لیکچرار عورتوں کو لیکچر دے سکتا ہے۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک مجالس میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی شامل ہوتیں تھیں، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو بھی وعظ و نصیحت کرتے تھے۔

 

(مفتی محمد شبیر قادری)

جی ہاں آدھے بازو تک شرٹ پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے اور نماز ہو جاتی ہے۔

(حافط محمد اشتیاق الازہری)

بسنت کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے اس کو علاقائی موسمی یا کلچرل تہوار کہہ سکتے ہیں۔ ایسے موسم ورواج بنیادی طور پر ناجائز وحرام بھی نہیں ہوتے اور سنت و واجب یا فرض بھی نہیں ہوتے جو مناتے ہیں ان کو منانے دیں اور جس کا من پسند نہ کرے وہ نہ منائے لیکن منانے والوں کو الزام نہ دیں۔
برصغیر پاک وہند میں موسم بہار کی آمد کے موقع پر بسنت منایا جاتا ہے، یہ ایک اظہار خوشی ہوتا ہے، جو بہار کے استقبال پر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر پتنگ اڑائے جاتے ہیں یا اور بھی خوشی منانے کے طریقے اپنائے جاتے ہیں، ان میں اس وقت تک کوئی ممانعت نہیں جب تک وہ غلط رنگ نہ پکڑ جائیں۔ یعنی خوشی منانے کے جو جائز طریقے ہیں وہ اپنائے جائیں، جس میں فحاشی وعریانی یا پھر لوگوں کے جان ومال کا عدم تحفظ آ جائے اس طریقے کی مذمت کی جائے اور اس کو سرے سے ختم کیا جائے۔ مثلاً پتنگ اڑانا بنیادی طور پر حرام وناجائز نہیں ہے لیکن جب اس کو اڑانے کے لیے ایسے طریقے اپنائے جائیں جن سے لوگوں کے جان ومال محفوظ نہ ہوں پھر یہ جائز نہیں ہونگے۔ اسلام بھی اور دنیا بھر کے قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے، جیسا کہ پتنگ اڑانے کے لیے دھاتی تار استعمال کی جاتی ہے، جو لوگوں کی گردنیں کاٹ دیتی ہے، بجلی کا نقصان ہوتا ہے اور بہت سے لوگ کرنٹ لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی طرح بسنت کے موقع پر فائرنگ کرنا جو لوگوں کی موت کا سبب بنتا ہے، شراب پینا، گندی فلمیں دیکھنا اور مجرے وغیرہ سب برے کام ہیں، جن کی اجازت نہ بسنت کے موقع پر ہے نہ ہی اس کے علاوہ ایسی حرکات کی اجازت ہے۔ اس لیے ہم براہ راست بسنت کو برا بھلا کہنا شروع نہیں کر دیں گے بلکہ غور طلب بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر بسنت کیا ہے اور اس موقع پر ہونے والے پروگرام کیا رخ اختیار کر گئے ہیں؟ تبدیلی کی ضرورت کہاں ہے؟ کیا تہوار ہی چھوڑ دیا جائے یا اس کو منانے کے لیے جو غلط طریقے آ چکے ہیں ان کو تبدیل کیا جائے ؟ اس پر غور کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

(مفتی عبدالقیوم ہزاروی)

سیاہ رنگ کے لباس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ آپ نے سیاہ رنگ کا لباس استعمال کیا ہو اور نہ ہی اس کی ممانعت پر کوئی روایت ہے اس لیے جائز ہے۔ البتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیاہ رنگ کا عمامہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لباس اور جوتوں کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :
حضرت سالم اپنے والد سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس نے تکبر سے اپنا تہبند یا شلوار ٹخنوں سے نیچی رکھی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے تہبند کا ایک سرا نیچے ہوتا ہے۔ لیکن یہ تکبر کی وجہ سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ان میں سے نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں۔(بخاری، 1 : 860)
امام ترمذی روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند نیچے رکھتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نگاہ رحمت سے نہیں دیکھے گا۔(ترمذی، 1 : 206)
ایسی متعدد احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خْیلاء(متکبرین) کی قید لگائی ہے۔ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اس بات پر صریح دلالت کرتی ہیں کہ اگر ایسا کرنا تکبر سے نہ ہو تو جائز ہے۔ علماء اور محدثین کرام بھی جواز کے قائل ہیں۔ آج کل بعض لوگ کسی بھی معاملے پر ایک آدھ حدیث کو پڑھ کر دوسروں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ محض کسی ایک حدیث کو کل دین سمجھنے کی بجائے اس موضوع پر دیگر سینکڑوں کتب احادیث کا بھی مطالعہ کریں۔ سینکڑوں احادیث ایسی ہیں جو کراہیت اور جواز دونوں پر دلالت کرتی ہیں۔

(صاحبزادہ بدر عالم جان)

سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ کوئی لباس انگریزی، عیسائی، ہندو یا یہودی نہیں ہوتا۔ ہر وہ لباس جو باپردہ ہو، گرمی سردی کی شدت سے بچائے اور پہنا ہوا اچھا لگے وہ اسلامی لباس ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے علاوہ کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس لیے مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترنے والا ہر لباس پہنا جا سکتا ہے۔اسلام ہر علاقے کے لوگوں کو اپنے ثقافتی لباس پہننے کی اجازت دیتا ہے، اگر وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ کیونکہ ہر علاقے، ثقافت اور کلچر کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ اسلام کسی ایک علاقے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ ایک آفاقی دین ہے جس نے ساری دنیا میں قابلِ قبول بننا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اسلام آفاقی انداز اپنائے۔ کسی ایک علاقے کے لباس، زبان اور رسوم کو لاگو نہ کرے۔ہر دور اور ہر علاقے کے اپنے رنگ ہوتے ہیں، جو عربوں سے نہ بھی ملتے ہوں یا عہدِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق نہ بھی ہوں توبھی قابلِ قبول ہیں۔اگر برِ صغیر پاک و ہند کے اکثر مسلمانوں کا لباس دیکھا جائے تو وہ شلوار قمیض ہے، جبکہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شلوار قمیض پہننے کی کوئی مستند روایت نہیں ملتی الاّ یہ کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند فرمایا۔ اس کے علاوہ کھانے، پینے، سواری کرنے اور دیگر بہت سی اشیاء ہم ایسی استعمال کرتے ہیں جن کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استعمال نہیں کیا۔ جیسے موبائل فون، کمپیوٹر، گاڑیاں، موٹر سائیکل، اے سی، پنکھے، کھانے پینے میں برگر، بوتل، پیزے وغیرہ اور ہزاروں ایسی اشیاجن کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔رہا لباس کا مسئلہ تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ مدینہ اور عرب علاقوں کے یہودی اور عیسائی جبّے پہنتے تھے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر جبہ پہننے کو ناجائز اور غیر اسلامی قرار نہیں دیا بلکہ خود پہن کر یہ ثابت کر دیا کہ کوئی لباس غیر اسلامی نہیں ہے جو باپردہ اور دیدہ زیب ہو۔ٹائی لباس کا حصہ ہے، مذہب کا نہیں۔ کوئی بھی اس کو عیسائیت کا حصہ نہیں سمجھتا۔ اگر ٹائی عیسائیت کی علامت ہوتی تو عیسائی اپنے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کو یہ نہ پہننے دیتے اور دوسری طرف ہر ٹائی پہنے ہوئے کو عیسائی سمجھا جاتا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ پینٹ کوٹ اور ٹائی کو عیسائی لباس قرار دے دیا جائے اور ہر ٹائی لگانے والے کو عیسائی سمجھا جائے۔ جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان ہونے کے لیے کسی ایک لباس کو لازمی قرار نہیں دیا تو ہمارا بھی یہ فریضہ ہے کہ ہم امت پر تنگی نہ کریں۔

(مفتی محمد شبیر قادری)