يسئلون
حالتِ احرام میں مردوں کے لیے خاص طرح کے چپل کی پابندی
ڈاكٹر عامر گزدر
سوال: مسائلِ حج میں ہمارے ہاں عام طور پر یہ بتایا جاتا ہے کہ مردوں کے لیے حالتِ احرام میں صرف ایسے چپل یا جوتے پہننا جائز ہے جن میں اُن کے پاؤں کی اوپر والی ہڈی، جہاں آدمی تسمہ باندھتا ہے، کھلی رہے، جیسے مثال کے طور پر دو پٹی والے چپل میں ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں اِس حکم کا ماخذ کیا ہے؟
جواب: مردوں کے لیے احرام میں یہ مسئلہ متاخرین حنفیہ نے بیان کیا ہے۔ وہ اِسے امام محمد رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، جب کہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ امام محمد سے یہ قول ثابت نہیں ہے(۱)۔ بہرحال یہاں یہ جاننا چاہیے کہ حج وعمرہ کی شریعت میں مردوں کے لیے جوتوں میں اِس طرح کی کوئی پابندی نہیں رکھی گئی ہے کہ وہ حالتِ احرام میں اپنے پاؤں کی اوپر والی اُبھری ہوئی ہڈی کو لازمًا کھلا رکھیں اور اِس مقصد کے لیے خاص طرح کے چپل ہی استعمال کریں۔
حالتِ احرام میں مردوں کے جوتوں کے لیے اِس طرح کی کوئی شرط قرآن وسنت یا نبی ﷺ کے قول وفعل کی احادیث میں کہیں بیان نہیں ہوئی ہے۔ اِس باب میں مردوں کے لیے جو چیز قانونِ شریعت کی حیثیت سے مقرر کی گئی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ آدمی پاؤں میں جو بھی جوتے، چپل، سینڈل یا موزے پہنے، وہ بہر حال ٹخنوں سے نیچے تک ہونے چاہییں۔ ایسے جوتے یا موزے وغیرہ پہننا، جو ٹخنوں کو بھی چھپا رہے ہوں، البتہ حالتِ احرام میں اُن کے لیے ممنوع ہیں۔ لہٰذا ہر وہ جوتا، سینڈل یا چپل جو ٹخنوں سے نیچے تک ہو، اُس کا استعمال مردوں کے لیے بلا تردد جائز ہے۔ یہی موقف اِس باب میں جمہور علما، فقہا ومحدثین نے اختیار کیا ہے۔(۲) عورتوں کے لیے جوتوں کے معاملے میں البتہ، اِس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
حنفیہ کا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس موقع پر احرام کی پابندیاں بیان فرمائی تھیں، آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مُحرم شخص موزے بھی نہ پہنے، البتہ اگر کسی کے پاس چپل نہ ہوں تو وہ اپنے موزوں کو ٹخنوں کے نیچے تک کاٹ کر پہن لے۔ (۳)کہتے ہیں کہ امام محمد سے مروی ہے کہ اِس حدیث میں ’ٹخنے‘ سے مراد پاؤں کی اوپر والی اُبھری ہوئی ہڈی ہے، جہاں آدمی تسمہ باندھتا ہے۔
بالبداہت واضح ہے کہ یہ ایک نہایت ضعیف استدلال ہے۔ اِس پر پہلی بات یہ عرض ہے کہ امام محمد سے یہ قول منسوب ہے، قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اُن سے یہ قول ثابت ہو، تب بھی اِس کی صحت کا جائزہ، ظاہر ہے کہ دلیل ہی کی بنیاد پرلیا جائے گا، اِس لیے کہ علما کی آرا کے اثبات کے لیے دلیل پیش کی جاتی ہے، خود اُن کی بات کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اِس راے کے غلط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ لفظ ’کعب‘ کا یہ معنیٰ لینا عربیت کے خلاف ہے۔ اہلِ لغت کے نزدیک یہ معنیٰ بالکل قابلِ قبول نہیں ہے۔ زبان کے لحاظ سے اِس کا صحیح مفہوم صرف وہی ہے جو ہم آیت وضو ’وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ‘، ’’اور ٹخنوں تک پاؤں بھی دھو لو‘‘(۴)سے اخذ کرتے ہیں۔ کسی صاحبِ علم کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ آیت وضو میں وہ ’ٹخنوں‘ سے ایک معنی مراد لے اور احرام سے متعلق حدیث میں وارد اِسی لفظ کو ایک نیا مفہوم پہنا دے جو عربیت ہی کے لحاظ سے درست نہ ہو۔ کیا حنفیہ کے اِس قول سے استدلال کر کے کوئی شخص یہ رائے اختیار کرسکتا ہے کہ وضو میں صرف پاؤں کی اوپر والی اُبھری ہوئی ہڈی تک پاؤں دھونے کا حکم قرآن میں آیا ہے، ٹخنوں تک دھونے کا حکم نہیں ہے۔صاف واضح ہے کہ علمی لحاظ سے یہ ایک نا قابلِ التفات بات ہوگی۔ اِس تفصیل سے متحقق ہوتا ہے کہ اِس مسئلہ میں حنفیہ کی یہ متفرد رائے دلیل کی رو سے قابلِ قبول نہیں ہے(۵)۔ لہذا حالتِ احرام میں مردوں کے لیے جائز ہے کہ جو چپل، جراب یا جوتا وہ چاہیں، پہن سکتے ہیں، تاہم اُسے لازمًا ٹخنوں سے نیچے ہونا چاہیے۔ اور یہی موقف جمہور علما وفقہائے امت نے اختیار کیا ہے۔
حوالہ جات:
(1) دیکھیے: احمد بن محمد القسطلانی، ارشاد الساری لشرح صحيح البخاري، ج۳، ص۳۱۴۔
(2) دیکھیے: الموسوعۃ الفقہیۃالکویتیہ، وزارة الاوقاف والشئون الاسلاميۃ، الكويت، ج۲، ص۱۵۴۔
(3) دیکھیے: صحیح بخاری، رقم ۵۸۰۶۔
(4) المائدہ ۵: ۶۔
(5) دیکھیے: ابن حجر العسقلانی،فتح الباری شرح صحيح البخاری،ج۳، ص۴۰۳۔