یہ ایک غلط بات مشہور ہو چکی ہے کہ زوال کے وقت عبادت جائز ہے یا ناجائز۔ اصل میں 24 گھنٹوں میں تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا اور سجدہ تلاوت جائز نہیں ہے۔ وہ اوقات درج ذیل ہیں:
1۔ طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے کا وقت۔
2۔ وقت استواء۔ جب سورج بالکل درمیان میں ہوتا ہے۔
3۔ غروب آفتاب ۔جب سورج غروب ہوتا ہے۔
زوال کا وقت تو وقت استواء کے بعد شروع ہوتا ہے یعنی جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔ معلوم ہوا زوال کے وقت نماز اور سجدہ تلاوت جائز ہے۔ ممنوعہ اوقات بیان کر دیئے گئے ہیں۔ باقی رہا تلاوت قرآن اور دیگر تسبیحات ہر وقت جائز ہیں۔ ان کے لیے کوئی ممنوع وقت نہیں ہے۔
ج : آپ کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مالی پریشانی بہت سی پریشانیوں کی جڑ ہے۔ اس لیے اس کا حل ہونا ضروری ہے۔آپ ذرا تصور کیجیے کہ حضور کے زمانے میں اگر حضورﷺ سے یہی سوال کیا گیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کیا جواب دیتے۔ آپ کی سیرت کی کسی بھی کتاب میں ہمیں کسی طرح کا وظیفہ بتانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ بہت غور طلب بات ہے۔ حدیث کا مستند ذخیرہ ہو یا قران مجید کی 114 سورتیں ہمیں اس طرح کی کوئی چیز کیوں نہیں ملتی۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ طریقہ کہ اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے کوئی وظیفہ کیا جائے اس کا کوئی تعلق قرآن وسنت سے نہیں ہے۔یہ اگر کوئی علم ہے تو بعد میں دریافت ہوا ہے۔ ہم لوگ قرآن وسنت کی روشنی میں دین بیان کرتے ہیں۔ لہذا ہمارا اس طرح کے فنون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرآن و حدیث سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو ارادہ و عمل کی آزادی دی ہے۔ اس کا لازمی تقاضا تھا کہ انسانی زندگی میں نتائج کو سعی و جہد پر منحصر کر دیا جائے۔ اس میں معاش بھی شامل ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں اصل الاصول یہ ہے کہ ہم اپنی سعی کی خامیوں کا جائزہ لیں اور اس کو اپنے امکان کی حد تک بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔لیکن یہ کوشش اپنی کامیابی کے لیے بہت سے موافق امکانات کی محتاج ہے۔ یہ امکانات دیکھے بھی ہیں اور ان دیکھے بھی ہیں۔ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ اپنے بل پر انھیں میسر کر سکے اس کے لیے صرف دعا کا راستہ ہے۔چنانچہ میں آپ کو بھی یہی تجویز کروں گا کہ آپ اپنی سعی کا جائزہ لیں اس میں وہ کمیاں جو آپ اپنی محنت اور عمل سے دور کر سکتے ہیں انھیں دور کریں اور ان کے کامیاب ہونے کے اللہ سے دعا کریں۔
جو لوگ اللہ کے ساتھ بندگی، شکر اور صبر کے ذریعے جڑے رہتے ہیں اور بندوں کے ساتھ احسان کا رویہ رکھتے ہیں اللہ ان کی غیب سے مدد کرتا ہے اور ان کے معاملات عزت سے انجام پاتے رہتے ہیں۔
(مولانا طالب محسن)
ج: تسبیح سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو تمام عیوب سے پاک قرار دیا جائے ۔ اس کے لیے سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھناچاہیے۔ یہ وہ کلمات ہیں جو پیغمبرﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں ۔ ان کو معانی کے شعور کے ساتھ پڑھا جائے ۔یعنی اللہ ہر عیب سے پاک ہے ، ہر شرک سے پاک ہے اور وہ تنہاذات ہے جس سے مجھے اپنا تعلق رکھنا ہے تو یہ گویا خدا کو اس کی تسبیح کے ساتھ یاد کرنا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)