نظم


مضامین

  زندگی انسان کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے زم کے سوا کچھ بھی نہیں   راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھل گیا جس دم ،تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں   زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم...


  لوگ جھوٹوں کو بھی سچوں میں گنوں کہتے ہیں چاپلوسوں کو ملنسار کہو کہتے ہیں   کتنا بگڑا ہے صد افسوس مزاج انساں جو کھر ی بولے نہ منہ اس کے لگو کہتے ہیں   اہل دنیا سے اگر راہ ترقی پوچھو رخ ہوا کا ہو جدھر تم بھی چلو کہتے ہیں ...


  عزم راسخ ہو تو سیلاب بھی ٹل جاتے ہیں  مستعد شخص کے حالات بدل جاتے ہیں   عمر بھر دل میں کھٹکتے ہیں جو کانٹوں کی طرح وہی سائے ہی تو جسموں کو نگل جاتے ہیں   کھیت پکتے نہیں سورج کی حرارت سے مگر دل کی آہوں سے تو پتھر بھی پگھل ...


  (اپنے معاشرے کے اہل اقتدار کے نام) نیم کا درخت بہت مفید ، بڑا ہی کارآمد سیکڑوں بیماریوں کی اک دوا ہزار روگوں کا علاج بے خطا! لیکن! شجر صداقت کی طرح نیم کا پیڑ بھی کڑوا ہوتا ہے! اسی لیے تو ہم نے اپنی بستی کے باغوں...


  ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام چہرے اتر اتر گئے کچھ رہنماؤں کے    اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ رہ جائیں گے زمین پر کچھ داغ چھاؤں کے   زندہ تھے جن کی سرد ہواؤں سے ہم قتیل اب زیرِ آب ہیں وہ جزیرے وفاؤں کے


  دبائے پھرتے ہو جنگل میں خشک چنگاری الاؤ بن کے یہ بھڑکی اگر تو کیا ہوگا   ہے آج اس کی گواہی پہ فیصلہ سچ کا اُسے عزیز ہوا اپنا سر تو کیا ہوگا   تمام عمر چلے ہیں تمہاری یاد کے ساتھ اکیلے کرنا پڑے گا سفر تو کیا ہوگا   ب...


  میرے بھی دل میں یہ حسرت ہے ایک مدت سے کہ میں بھی لپٹ کے روؤں نبیؐ کی تربت سے  سناؤں اتنے قصیدے شہ دو عالمؐ کو خطیب منبر دل کو رسولؐ اعظم کو کہ زندگانی کی شام ہو جائے  یہ عمر یوں ہی تمام ہو جائے   


  کبھی مجھ کو محو نہ کر سکے یہ رباب و چنگ کے زمزمے کہ دل اپنا مست ہے باغ طیبہ کے نغمہ ہائے طیور سے    مجھے بیر غرس کی چاہ ہے میری تشنگی ہی گواہ ہے یہ وہ تشنگی نہیں تشنگی جو بجھے شراب طہور سے   جبل احد کے نظارہ کی ہے نگاہ شوق ک...


مری کمر پہ شرافت کی کوئی لاش نہیں اِسی لیے تو مری ذات پاش پاش نہیں   تمام عمر گھسیٹا گیا ہوں کانٹوں پر یہ اور بات بدن پر کوئی خراش نہیں   شعورِ کرب کے اظہار کا وسیلہ ہے سخن حرم ہے مرا، ذریعہ معاش نہیں   میں خار زارِ محبت کو چھوڑ آیا...


ہم اگر ہم صدا نہیں ہوتے طَیر بھی لب کُشا نہیں ہوتے   جُرم ثابت ہے گل پرستی کا خار پر ہم فدا نہیں ہوتے   جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا آپ ہم سے جُدا نہیں ہوتے   فصلِ ابر و تبسمؔ گل میں محتسب! یوں خفا نہیں ہوتے ق وقت کے خسرو و جَم و دارا...


ساقئ بادۂ صافی کو منانے جائیں قسمتِ خُفتہ و مدہوش جگانے جائیں   تکیہ انداز ہیں جو کب سے حریمِ جاں میں دُردِ شافی سے ہی وہ روگ پُرانے جائیں   تیری خوشبو سے معطّر ہے مشامِ مستاں وقت جتنا بھی کٹے، جتنے زمانے جائیں   ہم سے مجذوب تو مرفو...


اچھے کبھی برے ہیں حالات آدمی کے  پیچھے لگے ہوئے ہیں دن رات آدمی کے    رخصت ہوئے تو جاناسب کام تھے ادھورے کیا کیا کریں جہاں میں دو ہاتھ آدمی کے   مٹی سے وہ اٹھا ہے ، مٹی میں جا ملے گا اڑتے پھریں گے اک دن ذرات آدمی کے    اک آگ حسرتوں ...