اپریل 2008
زندگی انسان کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے زم کے سوا کچھ بھی نہیں راز ہستی راز ہے جب تک کوئی محرم نہ ہو کھل گیا جس دم ،تو محرم کے سوا کچھ بھی نہیں زائرین کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی کیا حرم کا تحفہ زمزم...
لوگ جھوٹوں کو بھی سچوں میں گنوں کہتے ہیں چاپلوسوں کو ملنسار کہو کہتے ہیں کتنا بگڑا ہے صد افسوس مزاج انساں جو کھر ی بولے نہ منہ اس کے لگو کہتے ہیں اہل دنیا سے اگر راہ ترقی پوچھو رخ ہوا کا ہو جدھر تم بھی چلو کہتے ہیں ...
جون 2008
عزم راسخ ہو تو سیلاب بھی ٹل جاتے ہیں مستعد شخص کے حالات بدل جاتے ہیں عمر بھر دل میں کھٹکتے ہیں جو کانٹوں کی طرح وہی سائے ہی تو جسموں کو نگل جاتے ہیں کھیت پکتے نہیں سورج کی حرارت سے مگر دل کی آہوں سے تو پتھر بھی پگھل ...
(اپنے معاشرے کے اہل اقتدار کے نام) نیم کا درخت بہت مفید ، بڑا ہی کارآمد سیکڑوں بیماریوں کی اک دوا ہزار روگوں کا علاج بے خطا! لیکن! شجر صداقت کی طرح نیم کا پیڑ بھی کڑوا ہوتا ہے! اسی لیے تو ہم نے اپنی بستی کے باغوں...
ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام چہرے اتر اتر گئے کچھ رہنماؤں کے اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ رہ جائیں گے زمین پر کچھ داغ چھاؤں کے زندہ تھے جن کی سرد ہواؤں سے ہم قتیل اب زیرِ آب ہیں وہ جزیرے وفاؤں کے
دبائے پھرتے ہو جنگل میں خشک چنگاری الاؤ بن کے یہ بھڑکی اگر تو کیا ہوگا ہے آج اس کی گواہی پہ فیصلہ سچ کا اُسے عزیز ہوا اپنا سر تو کیا ہوگا تمام عمر چلے ہیں تمہاری یاد کے ساتھ اکیلے کرنا پڑے گا سفر تو کیا ہوگا ب...
جولائی 2008
میرے بھی دل میں یہ حسرت ہے ایک مدت سے کہ میں بھی لپٹ کے روؤں نبیؐ کی تربت سے سناؤں اتنے قصیدے شہ دو عالمؐ کو خطیب منبر دل کو رسولؐ اعظم کو کہ زندگانی کی شام ہو جائے یہ عمر یوں ہی تمام ہو جائے
کبھی مجھ کو محو نہ کر سکے یہ رباب و چنگ کے زمزمے کہ دل اپنا مست ہے باغ طیبہ کے نغمہ ہائے طیور سے مجھے بیر غرس کی چاہ ہے میری تشنگی ہی گواہ ہے یہ وہ تشنگی نہیں تشنگی جو بجھے شراب طہور سے جبل احد کے نظارہ کی ہے نگاہ شوق ک...
اگست 2008
مری کمر پہ شرافت کی کوئی لاش نہیں اِسی لیے تو مری ذات پاش پاش نہیں تمام عمر گھسیٹا گیا ہوں کانٹوں پر یہ اور بات بدن پر کوئی خراش نہیں شعورِ کرب کے اظہار کا وسیلہ ہے سخن حرم ہے مرا، ذریعہ معاش نہیں میں خار زارِ محبت کو چھوڑ آیا...
ہم اگر ہم صدا نہیں ہوتے طَیر بھی لب کُشا نہیں ہوتے جُرم ثابت ہے گل پرستی کا خار پر ہم فدا نہیں ہوتے جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا آپ ہم سے جُدا نہیں ہوتے فصلِ ابر و تبسمؔ گل میں محتسب! یوں خفا نہیں ہوتے ق وقت کے خسرو و جَم و دارا...
نومبر 2008
ساقئ بادۂ صافی کو منانے جائیں قسمتِ خُفتہ و مدہوش جگانے جائیں تکیہ انداز ہیں جو کب سے حریمِ جاں میں دُردِ شافی سے ہی وہ روگ پُرانے جائیں تیری خوشبو سے معطّر ہے مشامِ مستاں وقت جتنا بھی کٹے، جتنے زمانے جائیں ہم سے مجذوب تو مرفو...
اچھے کبھی برے ہیں حالات آدمی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں دن رات آدمی کے رخصت ہوئے تو جاناسب کام تھے ادھورے کیا کیا کریں جہاں میں دو ہاتھ آدمی کے مٹی سے وہ اٹھا ہے ، مٹی میں جا ملے گا اڑتے پھریں گے اک دن ذرات آدمی کے اک آگ حسرتوں ...