دسمبر 2008
فیضِ رمضاں سے ہو گیا دو چند جاں نثاروں کا آپؐ سے پیوند جو بھی احمدؐ کے نام لیوا ہیں حق کے جویا ہیں اور دانش مند میرزا! تم فَریب خوردہ ہو وَحی جبریلؑ ہے یقینا بند ٹیچی ٹیچی کی ‘مہربانی’ سے ہو گئے تم پیمبرِ پاژَند قادیاں ...
انسان کو انسان بنا د یتی ہے عورت گھر پیار کے پھولوں سے سجا دیتی ہے عورت چھا جاتے ہیں جب چاروں طرف غم کے اندھیرے سو دیپ محبت کے جلا دیتی ہے عورت ٹل جاتے ہیں چھائے ہوئے سب موت کی سائے اس طور سے جینے کی دعا دیتی ہے عورت خامو...
کون کہہ سکتا ہے کس کو کس قدر اچھا لگا ہر نظر کو میرا انداز نظر اچھا لگا دیکھنے والوں نے دیکھے اونچے ایوانوں کے خواب میری آنکھوں کو میرا چھوٹا سا گھر اچھا لگا منتظر ہیں دہر میں انساں کی عظمت کے طریق کوئی سجدے میں تو کوئی دار پر اچھا ...
فروری 2008
یہ بھی تو کسی ماں کا دلارا کوئی کوئی ہو گا اس قبر پہ بھی پھول چڑھا دے کوئی آکر سوکھی ہیں بڑی دیر سے پلکوں کی زبانیں بس آج تو جی بھر کے رلا دے کو ئی آ کر برسوں کی دعا پھرنہ کہیں خاک میں مل جائے یہ ابر بھی آندھی نہ اڑا ...
جولائی 2007
کوئی حسرت بھی نہیں، کوئی تمنا بھی نہیں دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں روٹھ کر بیٹھ گئی ہمت دشوار پسند راہ میں اب کوئی جلتا ہوا صحرا بھی نہیں آگے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے اب یہ عالم ہے ، کوئی دیکھنے ...
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت خوش ہو ں کہ راہ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں پیچھے نہ بھاگ ، وقت کی ناشناس دھوپ سایوں کے درمیان ہوں ، سا...
ہمیں کس طرح بھول جائے گی دنیا کہ ڈھونڈے سے ہم سا نہ پائے گی دنیا قیامت کی دنیا میں ہے دل فریبی قیامت میں بھی یاد آئے گی دنیا رلا دوں میں بہزاد دنیا کو خود ہی یہ مجھ کو بھلا کیا رلائے گی دنیا
دسمبر 2007
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے کبھی تم بھی سنو، یہ دھرتی کچھ کہتی ہے سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوجاتے ہیں اور دورکہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا ...
کوئی حسرت بھی نہیں ، کوئی تمنا بھی نہیں دل وہ آنسو جوکسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں روٹھ کر بیٹھ گئی ہمت دشوار پسند راہ میں اب کوئی جلتا ہوا صحرا بھی نہیں آگے کچھ لوگ ہمیں دیکھ کے ہنس دیتے تھے اب یہ عالم ہے ، کوئی دیکھنے...
دسمبر 2006
خدا کو چھوڑ کر جھکتے ہو تم کیوں غیر کے آگے ازل سے آ رہی ہیں یہ صدائیں سوچتے رہنا میرے ایقان کی منزل ،یا جوش جنوں ہے یہ قفس میں رہ کر بھی تازہ ہوا کا سوچتے رہنا نظر میں آئنہ ہے اور پتھر سوچتے رہنا پس منظر ہمیں اک اور م...
جنوری 2005
رنگ برنگے طوطے ہیں پنجرے میں یہ ہوتے ہیں رات کو گھر میں آئے چور طوطوں نے کر ڈالا شور سب گھر والے جاگ گئے چور وہاں سے بھاگ گئے
مارچ 2005
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا ...