کون کہہ سکتا ہے کس کو کس قدر اچھا لگا
ہر نظر کو میرا انداز نظر اچھا لگا
دیکھنے والوں نے دیکھے اونچے ایوانوں کے خواب
میری آنکھوں کو میرا چھوٹا سا گھر اچھا لگا
منتظر ہیں دہر میں انساں کی عظمت کے طریق
کوئی سجدے میں تو کوئی دار پر اچھا لگا
خوف طوفاں تھا جنہیں وہ غرق دریا ہو گئیں
بچ گئیں وہ کشتیاں جن کو بھنور اچھا لگا
بے خودی کے سحر میں تپتا سر صحرائے غم
سیایہ افگن دھوپ میں تنہا شجر اچھا لگا
٭سلمان احمد خان٭ (ابو ظبی)