نہ سکت ہے ضبط غم کی نہ مجال اشکباری
یہ عجیب کیفیت ہے نہ سکوں نہ بے قراری
ترا ایک ہی ستم ہے ترے ہر کرم پہ بھاری
غم دو جہاں سے دے دی مجھے تو نے رستگاری
مری زندگی کا حاصل ترے غم کی پاسداری
ترے غم کی آبرو ہے مجھے ہر خوشی سے پیاری
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
ترے جاں نواز وعدے مجھے کیا فریب دیتے
ترے کام آ گئی ہے مری زود اعتباری
مری رات منتظر ہے کسی اور صبح نو کی
یہ سحر تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری