ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو، یہ دھرتی کچھ کہتی ہے
سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوجاتے ہیں
اور دورکہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے
جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم ، مہمان سراہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
بیدار رہو ، بیدار رہو، بیدار رہو
اے ہمسفرو آواز درا کچھ کہتی ہے
ناصر آشوب زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے