نومبر 2014
ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی اْنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اْڑانے کو مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی رہِ حیات میں ک...
جنوری 2012
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ اب کی فصلِ بہار سے پہلے رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ دل ترے بعد سو گیا ورنہ شور تھا...
فروری 2010
دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی شور برپا ہے خانہ دل میں کوئی دیوار سی گری ہے ابھی بھری دنیا میں جی نہیں لگتا جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی یاد کے بے...
مارچ 2010
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا پہلے تیرا نام لکھا تھا میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے بار امانت سر پہ لیا تھا میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو جن و ملک نے سجدہ کیا تھا تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا میں جب رستے سے بھٹکا ...
دسمبر 2007
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے کبھی تم بھی سنو، یہ دھرتی کچھ کہتی ہے سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوجاتے ہیں اور دورکہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا ...
اپريل 2023
ياد رفتگاں ياد رفتگا ں پہ شاعري وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے --وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں --جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر --وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے یہ کون لوگ ...