ياد رفتگاں
ياد رفتگا ں پہ شاعري
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے --وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں --جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
میں ان کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر --وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر ادھر--وہ دوستی نبھانے والے کیا ہوئے
وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں --وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں --عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے
اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی --ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا--زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
ناصر كاظمي
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا --جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں --اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی--یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ --وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی --دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں --روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
وہ لوگ اپنے آپ میں کتنے عظیم تھے--جو اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے
ہائے وہ لوگ جو دیکھے بھی نہیں--یاد آئیں تو رلا دیتے ہیں
جانے والے کبھی نہیں آتے --جانے والوں کی یاد آتی ہے
اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا--ہمیں پھر آج پرانے دیار لے آئی
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں --خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
تشریح
غالب کا یہ مشہور شعر معنوی اور فنی دونوں سطحوں پر کمال کا درجہ رکھتا ہے۔ شعر کی مناسبتیں بڑی دلچسپ ہیں۔ لالہ و گل کی مناسبت سے صورتیں اور ان دونوں کی رعایت سے خاک، نمایاں کی مناسبت سے پنہاں اور ان دونوں کی رعایت سے ’خاک‘ ہر پہلو سے غور طلب ہے۔ انسانی صورتوں کو لالہ و گل سے مشابہ کرنا اور پھر ان کی نمود کے لئے خاک کو ذریعہ بنانا غالب کا ہی کمال ہے۔ اور اس سے بڑھ کر کمال یہ ہے کہ لالہ و گل کو انسانی صورتوں کا مرہونِ منت بتایا ہے۔ اور وہ بھی تب جب وہ خاک میں مل جاتی ہیں۔
’’سب کہاں کچھ‘‘ کہہ کر گویا یہ بات باور کرائی ہے کہ یہ جو لالہ و گل ہیں یہ ان انسانی صورتوں میں سے کچھ ہی میں نمودار ہوئے ہیں جو مرنے کے بعد قبر میں سماتی ہیں۔ ‘‘ ’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی‘‘ مطلب کیسے کیسے حسین و جمیل لوگ خاک میں مل گئے۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ زمین میں مرنے کے بعد بڑے خوبصورت لوگ مل جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہی لالہ و گل کی صورتوں میں نمایاں ہوجاتی ہیں۔ گویا لالہ و گل کی صوررت میں وہ پری جمال لوگ دوسرا جنم لیتے ہیں یا اگر ان خوبصورت لوگوں میں سے سب کے سب لالہ وگل کی صورت میں نمایاں ہوں گیں تو ساری زمین بھر جائے گی۔
كتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ --جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر ديا
جن پہ نازاں تھے یہ زمین و فلک--اب کہاں ہیں وہ صورتیں باقی
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی--کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
زندگی جن کے تصور سے جلا پاتی تھی--ہائے کیا لوگ تھے جو دام اجل میں آئے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے--اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری --پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں --اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
وہ جن کے نقش قدم دیکھنے میں آتے ہیں --اب ایسے لوگ تو کم دیکھنے میں آتے ہیں
جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے --وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں
کیسے قصے تھے کہ چھڑ جائیں تو اڑ جاتی تھی نیند--کیا خبر تھی وہ بھی حرف مختصر ہو جائیں گے
محبتیں بھی اسی آدمی کا حصہ تھیں --مگر یہ بات پرانے زمانے والی ہے
جس کا ساکن ہے مری ذات میں اب تک زندہ --پھول اس قبر پہ جا کر میں چڑھاؤں کیسے