يا درفتگاں
امی جان
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی !
"امی آپ رخصت ہونا چاہتی ہیں نا! جائیے ہم آپ کو نہیں روکیں گے”
ہم نے ان کی پیشانی چومی، ہاتھ تھاما، اور محبت بھرے بوسے دیتے ہوئے کہا، یہ سترہ اور اٹھارہ جنوری کی درمیانی رات تھی۔ہماری زندگی ہسپتالوں میں گزری ہے، پاکستان کے مختلف شہروں اور پاکستان سے باہر مختلف ممالک کے طرح طرح کے ہسپتال!
مریض، لواحقین، درد، گریہ، آنسو، موت، زندگی سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہر قدم پہ ایک کہانی دکھائی اور سنائی دیتی ہے۔ ڈاکٹروں کی زندگی میں یہ روزمرہ کی حقیقت بن جاتی ہے، کچھ رکتے ہیں، کچھ منہ موڑ کے گزر جاتے ہیں۔ایک منظر جس نے ہمیں بار بار ٹھٹکنے اور سوچنے پہ مجبور کیا اور ایک نیزے کی انی کی طرح روح میں گڑ گیا۔ عمر رسیدہ والدین، بوسیدہ جسم، ماؤف ذہن،دھندلی بصارت، گم سماعت، بجھا ہوا یادداشت کا دیا، زندگی کی آخری سیڑھی پہ کھڑے ہوئے، جدا ہونے کو کمر بستہ مگر اولاد بضد ہے کہ مشینی تنفس پہ ڈال کے روک لیا جائے یا اس قدر ادویات دی جائیں کہ دل کی رکتی تھمتی دھڑکن، دوا کے زیر اثر سرپٹ بھاگنے لگے۔موقف یہ ہے کہ ماں یا باپ بستر پہ اس حال میں بھی رہ جائیں تو رحمتوں اوردعاؤں کا خزینہ ہیں سو ان کی رخصتی موخر کرنے کے لئے ہر حیلہ کیا جائے۔ہم سوچتے ہیں، کیا کبھی کسی نے ان ماں باپ کے درد کا سوچا؟ دنیا و مافیہا سےبے خبر ہو جانے والوں کو کن عذابوں سے گزرنا پڑتا ہے، اپنی ہر سانس کا کیا تاوان دینا پڑتا ہے، پرسکون رحلت کی بجائے ایک عذاب مسلسل!
ہماری امی نے اپنی عمر کے آخری پانچ سال موم بتی کی طرح قطرہ قطرہ پگھل کے گزارے اور ہم ان برسوں میں موم بتی کی ٹمٹاتی لو کو تیز ہواؤں اور طوفانوں سے بچا کے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ نہ تیز چلتے جھکڑوں میں کمی آئی اور نہ ہی ہماری محبت کا پیمانہ لبریز ہوا۔2018 میں ان کا جسم اتنا نحیف ہو گیا کہ وہ کروٹ بدلنے سے بھی گئیں۔ ہاتھ ہلانا مشکل ہوا، آنکھ کا دیا بجھ گیا، سماعت مدھم پڑ گئی، خوراک کی اشتہا غائب ہو گئی لیکن شکستہ گویائی اور سانس کی ڈوری قائم تھی۔ تب ہم نے دل سے رستے لہو اور روح میں چھبتی کرچیوں کے ساتھ سوچا، اب اگر امی رخصت ہونا چاہیں تو ہم انہیں نہیں روکیں گے۔امی نے بات کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ پوچھنے پہ بھی جواب نہیں دیتیں، پانی تک پلانا مشکل ہے”پاکستان سے بھائی کا فون تھا!” تم انہیں ہسپتال لے جاؤ، اگلی فلائٹ سے ہم پہنچ جائیں گے ۔ اگلی صبح لاہور کی فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کی فلائٹ لے لی جائے اور وہاں سے Daewoo پہ لاہور۔ صبح چھ بجے گھر سےنکلے اور رات آٹھ بجے Daewoo سے سیدھے ہسپتال۔امی ICU میں پانچ دن بغیر کسی مشینی تنفس کے رہیں لیکن حالت وہی تھی۔ ہم سے ایک طویل گفتگو کے بعد ڈاکٹرز نے فیصلہ کیا کہ مائع خوراک اور پیشاب کی نالیوں کے ساتھ گھر بھیج دیا جائے۔
گھر آ کے ہم نے بھائی بھابھی کو دو دن میں مائع خوراک ٹیوب سے دینے کی تربیت دی۔ امی کی ہیلپر کو بیڈ سورز سے بچاؤ کی ترکیبیں سمجھائیں۔ اب ہمیں واپس جانا تھا۔اٹھارہ جنوری کی صبح چھ بجے کی فلائٹ تھی۔ امی کو بارہ بجے خوراک اور دوا اپنے ہاتھوں سے پلا کر چاہا کہ اپنا سامان سمیٹ لوں۔ اپنے کمرے میں آئےدس منٹ ہی گزرے تھے کہ بھابھی نے ہمیں آواز دی،” طاہرہ آپی ، ذرا امی کے کمرے میں آئیے”ہم بھاگے امی کے کمرے کی طرف ” یا اللہ خیر” ۔ دس منٹ پہلے کی پرسکون سانسیں اب بے ترتیب تھیں اور رفتہ رفتہ اونچی ہوتی تھیں۔ بلڈ پریشر گر رہا تھا، نبض ڈوب رہی تھی۔ ہم سمجھ گئے کہ امی آزاد ہونے کو ہیں۔ ہم امی کے پاس بیٹھ گئے، ان کا ہاتھ تھاما اور بہتے آنسوؤں اور رندھی آواز سے ان سے زندگی کی آخری باتیں کیں کہ ماں باتوں کی بہت شوقین تھیں۔امی … پیاری امی آپ جانتی ہیں نا، ہم آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں .. امی آپ کےبغیر رہنا کتنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔ امی آپ سے ملنے کے لئے تین ماہ کا عرصہ بھی زیادہ لگتا تھا … ہم نے کوشش کی کہ غیر ملک میں رہ کر بھی اپنی دید کی پیاس بجھا سکیں ۔ امی آپ زندگی کا مرکز تھیں اور ہماری زندگی بھی … امی آپ نے ہر قدم پہ ساتھ دیا، ہمارے بچوں کو اپنی چھاؤں میں سمیٹا، ان ساری محبتوں کا بہت شکریہ، امی ۔ امی میں اس جدائی پہ ہم بہت دکھی ہیں لیکن امی ایک بات کہوں … امی …آپ اس قید سے رہا ہو رہی ہیں جس نےانتہائی متحرک، زندہ دل، شوقین اور زندگی سے بھرپور عورت کو راکھ میں بدل دیا۔ہم نے آپ کو ریزہ ریزہ بکھرتے دیکھا ماں۔ ان خوبصورت آنکھوں کی جوت بجھتے دیکھی، بینائی سے محرومی دیکھی، قوت سماعت جاتے دیکھی، پہچان اور آشنائی گم ہوتے دیکھی۔ ہم نے آپ کو بیگانہ ہوتے دیکھا۔ ہم نے اپنے آپ کو آپ کے دل میں دفن ہوتے دیکھا۔ہم نے ایک ایسی مٹی کی مورت دیکھی جو سانس کی ڈوری سے بندھی تھی۔ زمان و مکان سے بے نیاز،ایک ہڈیوں کی مالا جو رب کے بلاوے کا انتظار کرتی تھی۔ جو خالی نگاہوں سے اس اجنبی دنیا اور اس کے مسافروں کو تکتی تھی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا، لفظ کھو چکے تھے، ہاں آنسو تھے جو بقیہ زندگی کا پتہ دیتے تھے۔آپ کو معلوم ہے امی … ہم نے رب سے کیا مانگا؟ وہ نہیں جو ہماری محبت کو تو سیراب کرتا لیکن آپ کی قید کو اور لمبا کر دیتا۔ یہ تو خود غرضی ہوتی نا!امی … ہم نے آپ کی اس قید سے رہائی مانگی۔ دل پہ پتھر رکھ کے آپ کے لئے آزادی مانگی۔ آپ کو گھومنے میں بہت مزا آتا تھا نا، آپ کے لئے آسمانوں کی پرواز مانگی۔
امی … آپ جا رہی ہیں نا، ہمارا آخری سلام اور پیار لیجیے۔ اب کے بعد یہ چاند چہرہ ہم کبھی نہیں دیکھیں گے … اب کے بعد ہمارے انتظار میں چمکتی انکھیں کہیں نہیں ہوں گی۔
بقیہ عمر آپ کو ہم دل میں بسا کے گزاریں گے … ہرلمحہ آپ ہمارے ساتھ ہوں گی۔ ہم اداس ہیں لیکن آپ فکر نہ کیجئیے گا، آپ کی ان گنت یادوں کےسہارے ہم جی لیں گے جو کبھی ہنسائیں گی اور کبھی رلائیں گی، اس وقت تک کے لئے جب ہم کہیں اور ملیں۔
ہم نے امی کے آنسو رخساروں سے پھسلتے دیکھے، ہاتھ کی گرمی ہلکی ہوتی محسوس کی، سانس کی رفتار مدھم اور پھر رکتی دیکھی … اور بس ۔ روح اپنے دیس جا چکی تھی۔ہماری امی کو یہ منظور نہیں تھا کہ وہ اپنی آخری سانس کسی اور کی بانہوں میں لیں۔شکریہ امی ! خداحافظ امی !