ياد رفتگاں
تاثرات --ڈاکٹر شیخ محمد اکرام، صاحب، موج کوثر، رود کوثر، آب کوثر، حکیم فرزانہ۔۔ کی وفات پر جناب مولانا محمد حنیف ندوی کا مضمون
محمد حنیف ندوی
ڈاکٹر شیخ محمد اکرام کی ناگہانی موت سے تصنیف و تالیف کی ایک روایت کو شدید نقصان پہنچا ہے ، اس روایت کا تعلق علم و ادراک کے ساتھ دلی لگاؤ اپنے پسندیدہ موضوع کے ساتھ والہانہ شغف اور مطالعہ و تجزیہ کی عظیم صلاحیتیوں سے ہے۔کچھ لوگ لکھنے کے لئے پڑھتے ہیں، یعنی پڑھتے کم اور لکھتے زیادہ ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ نگلتے کم اور اُگلتے زیادہ ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پہلے پڑھتے سوچتے اور اس کو فکر و ذہن کا جزو بناتے ہیں اور شب و روز کی عرق ریزی، مطالعہ اور تحقیق سے کچھ نتائج ترتیب دیتے ہیں۔ اس کے بعد کہیں جا کر قلم اٹھانے کی جرات کرتے ہیں اور ان انمول موتیوں کو صفحات قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں جو مطالعہ و جستجو کے دوران حاصل ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب مرحوم کا شمار اس دوسرے گروہ میں ہوتا ہے۔ محنت ،تلاش اور جگر کاوی جن کا شعار و عادت ہے۔
ان کے نتائج فکر سے ممکن ہے بعض حضرات کو دیانت دارانہ اختلاف ہو لیکن اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ وہ جب بھی لکھتے تھے متعلقہ موضوع پر پوری طرح حاوی ہو کر لکھتے تھے چنانچہ ان کی نگارشات کے سرسری مطالعہ ہی سے جو تاثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ موضوع کے بارہ میں جتنا بھی اور جہاں کہیں مواد مرقوم ہے اس پر اُن کی گہری نظر ہے۔ تاریخ ان کا چہیتا موضوع تھا۔ تاریخ کے تصور سے کئی نکات ابھر کر ذہن و فکر کی سطح پر آتے ہیں۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس سے مراد کسی خاص دور میں پیش آنے والے اہم واقعات کو قلم بند کر لینا ہے اس حقیقت پر بھی تاریخ کا اطلاق ہو سکتا ہے کہ کسی متعین عصر میں حالات و واقعات کی ستم ظریفیوں نے کس طرح کے ردِ عمل کو جنم دیا۔ دوسرے پیرایۂ بیان میں اس چیز کو یوں بھی ادا کر سکتے ہیں کہ اس عصر کے رجحانات اور سرگرمیوں نے اہل دانش یا صاحبِ کردار و سیرت اشخاص کو کس طرز فکر و عمل پر مجبور کیا۔ تاریخ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ کسی خاص قوم یا عہد کو دیکھ کر کچھ کلیات اور قاعدے دریافت کئے جائیں اور یہ معلوم کیا جائے کہ وہ کون عناصر یا قوتیں ہیں جو تاریخ سازی کا کردار ادا کرتی ہیں۔
شیخ صاحب مرحوم کن معنوں میں مورخ تھے اس کا اندازہ ان کی تصنیفات سے بخوبی ہو پاتا ہے جہاں تک کسی عہد یا دور کے حالات و واقعات کو ضبطِ تحریر میں لے آنے کا سوال ہے ظاہر ہے کہ شیخ صاحب مرحوم کو اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ فلسفہ تاریخ بھی ان کے مزاج و ذوق کے اعتبار سے غیر ضروری چیز تھا۔ تاریخ میں ان کے رجحان و میلان کا رُخ اس حقیقت کی طرف تھا کہ کسی نہ کسی طرح پاک و ہند میں مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ عہد اقتدار میں ان کی تہذیب و ثقافت اور کردار و سیرت کے ان گوشوں کو اجاگر کیا جائے جو حالات و ظروف کی مساعدت یا عدم مساعدت کی وجہ سے ردِ فعل کے طور پر ابھرے اور مسلمانوں کے لئے وجہ افتخار بنے اس میدان میں ان کی علمی کوششیں کہاں تک کامیاب رہیں اور کیونکر ان کی ناموری اور شہرت کا ذریعہ قرار پائیں، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آبِ كوثر، موجِ کوثر، اور رودِ کوثر، جب پہلی دفعہ چھپیں تو ہاتھو ں ہاتھ لی گئیں اور پھر بار بار زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں اور ہر حلقے میں بدرجۂ غایت پسندیدگی اور احترام کی نظر سے دیکھی گئیں۔۔
ان کے مرتبہ تاریخ دانی کا ذکر چھڑا ہے تو ان کی علمی تواضع اور دیانت داری کا یہ گوشہ بھی نظروں سے اوجھل نہیں رہنا چاہئیے کہ انھوں نے کبھی بھی اپنی تصنیفات کو حرفِ آخر یا مبرا عن الخطا نہیں سمجھا، جب بھی کسی پڑھے لکھے شخص نے ان کےاسلوبِ بیان مندرجہ واقعات ، اور دلائل سے متعلق کوئی مفید مشورہ دیا انھوں نے نہ صرف اس کو بخندہ پیشانی قبول کیا بلکہ دوسرے ایڈیشن میں اس کے پیش نظر اس کی اصلاح کر دی اور اگر یہ دیکھا کہ مشورہ میں جھول ہے تو اپنے دعاوی کی تائید میں حوالو ں کا انبار لگا دیا۔ حک و ترمیم اور اضافہ و توسیع کی اس خُو سے بعض حضرات نے ناجائز فائدہ بھی اٹھایا اور ایسی غیر ذمہ دارانہ افواہوں کو اڑایا جن کے متعلق میں صرف یہ کہ سکتا ہوں اور پانچ چھ برس کی اس رفاقت کی بنا پر کہ سکتا ہوں جو مجھے حاصل رہی کہ یہ افواہیں سراسر بے بنیاد اور غلط ہیں۔ مرحوم کی تصنیفی شہرت اور ناموری سراسر اپنی سال ہا سال کی محنت و کاوش اور مطالعہ و تحقیق کی بے نظیر صلاحیتوں کی رہین منّت ہے اور اس میں کسی دوسرے کا قطعی کوئی ساجھا نہیں۔
مرحوم جب پہلے پہل ادارہ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے تشریف لائے تو میں نے محسوس کیا کہ ہم دونوں میں ذوق و مزاج کا بین اختلاف ہے۔ مرحوم تاریخ پر جان چھڑکتے یا اس کی فکر و کاوش میں جان کھپاتے اور گھلاتے تھے اور میں اسلامی فلسفہ کا طالب علم تھا۔ میرے شغفِ فکر آموزی اور ان کے ذوقِ تاریخ کی وجہ سے ہم دونوں میں ایک عرصہ تک اجنبیت کی دیواریں حائل رہیں جو بتدریج گریں اور زائل ہوئیں۔ میں سمجھتا تھا کہ جب تک مسلمانوں کے فقہی اور فلسفیانہ کارناموں کو اردو میں منتقل نہیں کیا جاتا اس وقت تک نا ممکن ہے کہ احیائے اسلام کی تحریک پروان چڑھے۔ اگر ہمیں ایک نئی تہذیب کی تعمیر کرنا ہے ، نئے معاشرے کو ڈھالنا ہے اور فکر و نظر کو نئے اسلوب عطا کرنا ہے تو یہ نہایت ضروری ہے کہ پہلے ہم یہ جان لیں کہ ہمارے قافلہ فقہ و دانش نے، قانون اور فلسفہ کو کہاں چھوڑا، کن بلندیوں تک پہنچایا اور موجودہ علوم و تجربات کی روشنی میں ان میں سے ہمیں کیا بڑھانا یا گھٹانا ہے، فقہ کا ترجمہ ہماری سوسائٹی کے لئے ٹھوس اور اسلامی نظریات پر مبنی تہذیبی بنیادیں مہیا کرے گا اور فکر و فلسفہ کی تشریح ووضاحت، قلوب و اذہان کو نئی روشنی اور نئی زندگی بخشے گی اور منزل و راہ کی نئی حقیقتوں کی طرف توجہ دلائے گی۔ مرحوم شیخ صاحب کی رائے یہ تھی کہ احیائے اسلام کے لئے تاریخ اور بالخصوص اسلامی ہند کی تاریخ کا مطالعہ و تحقیق وہ نقطہ آغاز یا مبدا و اصل ہے جس کو جانے اور واضح کئے بغیر معاشرہ کی تعمیرِ نو کا کام ادھورا رہے گا۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ تاریخ اور صرف تاریخ ہمیں وہ فکری تسلسل عطا کرتی ہے جس کے بل پر کسی معاشرہ کو استواری و استحکام حاصل ہو گا۔ باتیں دونوں اپنی جگہ صحیح اور بجا تھیں۔ سوال صرف یہ تھا کہ ہم دونوں میں تطبیق کی کیا صورت پیدا کریں۔ مزاج و ذوق کے اس اختلاف نے دلچسپ نوک جھونک اور بحث و نظر کے کن لطائف کی تخلیق کی، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جو مستقل توجہ و التفات چاہتا ہے۔ سرِ دست یہ جان لینا کافی ہے کہ ہم دونوں نے اپنے اپنے موقف میں تھوڑی سی تبدیلی کی۔ ہم دونوں در اصل ایک طرح کی تجرید کا شکار تھے وہ ماضی کے پُر امن شبستانوں میں ذہنی تسکین کا سامان ڈھونڈتے تھے اور میں خیالات و افکار کی اس جنت میں گم تھا جس کی آبیاری غزالی، ابن رشد، ابن خلدون اور علامہ ابن تیمیہ کی جدت طرازیوں نے کی تھی۔ بالاآخر طے یہ ہوا کہ ہم دونوں تجرید کے اس خول سے نکلیں اور اس دَور کے مسائل و حالات سے پنجہ آزمائی کریں جن سے ہم سب دوچار ہیں۔ میرے متعلق ان کا یہ فیصلہ تھا کہ میں تو "اساسیاتِ اسلام" کے نام سے ایک کتاب لکھوں جس میں فرد، معاشرہ کے بارے میں ان تمام شکوک و شبہات کا جائزہ لوں، جن کو جدید علوم و انکشافات نے نژادِ نو کے دل و دماغ میں ابھار دیا ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل پیش کروں۔ اور خود اپنے لئے انہوں نے جو موضوع پسند کیا وہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں جو المیہ رونما ہوا، اس کے تہذیبی و ثقافتی وجوہ کی نشان دہی کی جائے اور دیکھا جائے کہ وہ کیا نفسیاتی اور تاریخی حالات تھے جس نے امتِ مسلمہ کی صفوں میں نفرت و بیگانگی کے بیج بوئے۔ اس سلسلہ میں مرحوم کے سامنے ایک طویل المعیاد منصوبہ تھا ان کا خیال تھا کہ ذرا حالات کا دھارا سنبھلے اور فضا سازگار ہو تو وہ خود مشرقی پاکستان جائیں۔ لوگوں سے ملیں جُلیں۔اس دور کے نشریات کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کریں اور پھر یورپ کی لائببریریوں میں گھوم پھر کر مناسب مواد مہیا کریں اور یہ دیکھیں کہ نفسیات، تہذیب و تمدن اور سیاسیات کی کن کڑیوں نے بہ حیثیت مجموعی اس حادثہ عظیم کو جنم دیا۔ افسوس کہ موت نے انہیں اچانک آ لیا اور اس طرح ہم ان کے اس تاریخی شاہ کار کی تدوین و ترتیب سے محروم رہے(المعارف فروری مارچ 1973)