ياد رفتگاں
الوداع پیارے بھائی … بریگیڈئر حماد لطیف
ڈاکٹر جویریہ شجاع
شاید وہ میری زندگی کا سب سے مشکل سوال تھا، اور اس سے بھی مشکل اس کا جواب۔ صبح صبح فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جواد (بھائی) تھا۔ کہنے لگا ''جویریہ ڈاکٹرز پوچھ رہے ہیں کہ حماد کی طبیعت کسی بھی وقت زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو کیا حماد کا CPRکرنا ہے؟ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو Ventilator پر ڈالنا پڑے، وہ لوگ Consentمانگ رہے ہیں کیا کہوں ان کو؟ میں بے جان سی ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ حماد جا رہا تھا اور میں اس کی حالت سے بخوبی واقف تھی میں نے بمشکل جواب دیا …'' نہیں''۔ وہ کہنے لگا ''ہاں رافعہ (بھابھی) کا بھی یہی خیال ہے ''۔حماد … میرا چھوٹابھائی، میرا دوست، میرا ہمدرد۔ وہ بہنیں جن کے بھائی ان سے چھ سات سال چھوٹے ہوں گے وہ جانتی ہوں گی کہ چھوٹا بھائی پہلے بچے کی طرح ہوتا ہے جو آپ کے بچپن کی سب سے بڑی خوشی ہوتا ہے۔ آپ نے اس کا منہ ہاتھ دھلانے اورکنگھی کرنے سے لے کر، اسے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر کھلانے تک اس کے سارے کام کئے ہوتے ہیں۔ پھر وہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اسے ہوم ورک کروانا، سبق یاد کروانا، امتحان کی تیاری کروانا، یہ تمام کام آپ ہی کے ذمے ہوتے ہیں اورحماد تو پھر حماد تھا۔ بلا کا ذہین ۔ مجھے اقبال کی شاعری پسند تھی اور حماد کا حافظہ بے مثال تھا۔ میں دو مرتبہ کلام اقبال اس کو سناتی تو اسے ازبر ہو جاتا۔ پانچ چھ سال کی عمر میں جب وہ سکول کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا--میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوہء آزری
کر م اے شہہ عرب و عجم ۖ، کہ کھڑے ہیں منتظر کرم--وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغ سکندری
اور--کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ فضا دیکھ--مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
جیسے مشکل کلام پڑھتا توہر کوئی ششدر رہ جاتا۔ وہ دوسری تیسری جماعت ہی میں تھا تو اس کو اقبال کا بہت سا کلام زبانی یاد تھا۔ جوش ملیح آبادی کی طویل نظم ''سورة رحمٰن کا منظوم ترجمہ''، بہت سے ترانے، نعتیں، قوالیاں اسے ازبر تھیں۔ سکول کے ادبی مقابلوں میں وہ جس ٹیم کے ساتھ ہوتا ان کی عید ہو جاتی۔ سکول میں وہ ''کلام اقبال والا حماد لطیف'' کے نام سے مشہور تھا۔ ہم طویل سفر پر روانہ ہوتے تو حماد کی دلچسپ باتوں میں سفر گزرنے کا پتہ بھی نہ چلتا۔ اس کی حس مزاح اور برجستہ جملے اس کو محفل کی جان بنا دیتے۔ہمارے بچپن میں لوگ ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوتے تھے کیونکہ شاید ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت وقت بتاتے تھے۔ مظفرآباد کی شدید سردی میں جب بجلی چلی جاتی تو ہم گھنٹوں انگیٹھی جلا کر کمرے میں اکٹھے بیٹھ جاتے اور ڈھیروں باتیں کرتے۔ دستر خوان پر اکٹھے کھانا کھاتے۔ بہت ادب سے والدین کی سبق آموز کہانیاں اور نصیحتیں سنتے۔ بیت بازی، کسوٹی اور مختلف بورڈز گیمز کھیلتے۔ پورے دن میں پی ٹی وی پر کوئی ایک آدھ ہمارے مطلب کا پروگرام ہوتا تو خوب اہتمام سے دیکھتے۔ شام کو مل کر محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلتے، بھاگتے، دوڑتے ، شور مچاتے اور پھر سرشام ہی تھک کر سو جاتے۔ اس سب میں حماد ہمارے گھر کی رونق تھا۔ ہماری جان تھا۔
ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم--دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
چھٹی جماعت تک مظفرآباد کے پبلک سکول اور پھر نیلم سکول میں رہنے کے بعد گیارہ سال کی عمر میں اسے ایبٹ آباد پبلک سکول میں داخلہ مل گیا۔ اس کے بعد ہماری ملاقات چھٹیوں ہی میں ہوتی جب ہم تینوں بہن بھائی اپنے اپنے تعلیمی اداروں سے گھر آتے۔ میں جہاں جاتی میری پیچھے پیچھے پھرتا رہتا۔ اپنے ہاسٹل کی ایک ایک بات بتاتا۔ اپنے دوستوں کے قصے، اپنے ٹیچرز کی باتیں، اپنی شرارتیں ہر ہر بات شیئر کرتا۔ میں کنگھی کر رہی ہوتی تو برش میرے ہاتھ سے لے کر میری کنگھی کرتا اور چٹیا بھی بنا دیتا۔ اکثر اپنا میٹریس گھسیٹ کر میرے کمرے میں لے آتا اور رات دیر تک باتیں کرتا رہتا تھا۔ بھوک لگتی تو خود ہی آلو کے موٹے موٹے کتلے کاٹ کر فرائی کرتا اور ساتھ دہی میں چاٹ مصالحہ ڈال کر چٹنی تیار کر لیتا اور ہماری دعوت ہو جاتی۔ہاسٹل واپس جانے کا وقت آتااور اگر میں نے پہلے نکلنا ہوتاتو میری منت کرتا کہ پلیز پہلے میں چلا جاؤں پھر آپ نے جانا ہے۔ ایک ہی رٹ ہوتی ''جیا باجی نہ جائیں''۔ دنیا سے جاتے ہوئے بھی اس نے جلدی کی۔ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ایسی دنیا میں رہنا پڑے گا جس میں وہ نہیں ہو گا۔
حماد کی شادی ماموں کی بیٹی رافعہ سے طے پائی۔ یوں تو یہ ارینج میرج تھی مگر رافعہ اس کو ہمیشہ سے پسند تھی ان دنوں حماد کی پوسٹنگ سیالکوٹ میں تھی ۔ولیمے کی سادہ سی تقریب گھر کے صحن میں ہی منعقد کی گئی جس میں اس کے چند قریبی دوست اور خاندان کے افراد شامل تھے۔ وہ بہت خوش تھا ۔ اور ہمیشہ خوش رہا۔ موت سے چند دن پہلے بھی اس نے مجھے کہا کہ رافعہ نے ہر مشکل وقت میں میرا بڑاساتھ دیا ہے، میں اس سے بہت خوش ہوں''۔
فوج سے اس کو عشق تھا۔ اس نے اپنے شوق سے آرمی جوائن کی تھی۔ ملک کے خلاف وہ ایک لفظ بھی سننا پسند نہیں کرتا تھا۔اپنے لوگوں سے اسے بے پناہ محبت تھی۔ ایک دن کہنے لگا جب میں پاکستان سے باہر جاتا ہوں اور پھر واپسی پر جب پاکستان کی سرزمین پر جہاز لینڈ کر رہا ہوتا ہے تو میرا دل سکون، محبت اور خوشی سے بھر جاتا ہے۔ مجھے ا یسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پر اللہ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا سایہ ہے جو مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے، جس نے اس ملک کا برا سوچا اللہ نے اسے برباد کیا۔پھر مثالیں دے کر اپنی بات ثابت کرتا۔ایک دفعہ جب ملکی حالات بہت خراب تھے تو ہم نے اس کے لئے دبئی میں ایک بہترین جاب دیکھی مگر جب اس سے بات کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاک فوج اور پاکستان کو چھوڑ کر کہیں جاؤں گا، میرا جینا مرنا یہیں ہے۔ اس نے تو علاج کے لئے بھی پاکستان سے باہر جانے سے انکار کردیا۔
ان دنوں حماد کی پوسٹنگ شورش زدہ علاقوں میں تھی۔ حالات بے حد خراب تھے۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ابھی کوئی خبر آئے گی۔ چھٹیوں میں گھر آیا توکہنے لگا ''میں صدقہ گاڑی میں آگے بیٹھتا ہوں، ڈرائیور کے ساتھ۔ اس سے ڈرائیور کا مورال ہائی رہتا ہے''-میں نے حیرت سے پوچھا ''صدقہ گاڑی'' کیا ہوتی ہے۔ کہنے لگا "صدقہ گاڑی فوجی قافلے میں سب سے آگے جانے والی گاڑی ہوتی ہے جو باقی قافلے سے کچھ آگے فاصلہ رکھ کر چلتی ہے۔ آپ جانتی ہیں شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں نے جگہ جگہ بارودی سرنگیں نصب کر رکھی ہوتی ہیں یا رستے میں بم پلانٹ کر دیتے ہیں۔ یہ گاڑی سب سے آگے چلتی ہے اور اگر خدانخواستہ آگے بم یا بارودی سرنگ سے ٹکرا جائے تو خود تو تباہ ہو جاتی ہے مگر باقی قافلہ بچ جاتا ہے۔ہم نے اس کا نام صدقہ گاڑی رکھا ہوا ہے۔'' اور میں حیرت سے حماد کو دیکھنے لگی۔جب وہ واپس آیاتو حالات کافی بہتر ہو گئے تھے۔ کہنے لگا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہاں ہر چھ کلومیٹر پر ایک شہید ہے۔ میری یونٹ کے بھی بہت سے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کہنے لگا ہم نے ایک بندہ پکڑا جس کا کا م پاک فوج کے جوانوں، پولیس والوں اور عام لوگوں کو قتل کر کے ان کے گلے کاٹنا تھا۔ جب میں اس سے ملنے گیا تو مجھے دیکھ کر وہ تھر تھر کانپنے لگا میں نے پوچھا کہ '' تمہارے یہ ہاتھ معصوم انسانوں کا گلہ کاٹتے ہوئے کبھی نہیں کانپے؟'' مگر وہ میرے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ایک دفعہ بتانے لگا کہ کچھ دن پہلے ہی ہم نے ایک سوزوکی وین پکڑی ہے جو چھت تک بارود سے بھری ہوئی تھی اور اگر وہ پھٹ جاتی تو سینکڑوں لوگ شہید ہو جاتے۔ ان گاڑیوں ، اسلحہ اور بارود کے پیسے انڈیا ہی دیتا ہے۔ دہشت گردوں کو بھی ایک ایک بندہ قتل کر نے کا معاوضہ دیاجاتا ہے۔ انہوں نے بس ایک بیگ ہی جا کر کسی عوامی جگہ پر رکھنا ہوتا ہے۔ فوجی اور پولیس والے کو قتل کرنے کا معاوضہ زیاد ہ ملتا ہے۔اسلام آباد میں چینی باشندوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو پکڑوانے میں بھی حماد کا اہم کردار تھا۔ بعد میں جب تقریباً تین سو دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا اور ہزاروں کو افغانستان سے بلا کر کے پی کے میں آباد کیا گیا تو مجھے بے حد تکلیف ہوئی۔ میں جانتی تھی کہ ایک دہشت گرد کو پکڑنے کے لئے کبھی کبھی ہمارے کئی کئی جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔حماد نے یو این مشن کے ساتھ لائبیریا جانا تھا۔ ان دنوں آرمی پبلک سکول والا واقعہ ہوا تھا اور وہ بہت پریشان تھا۔ اس کا فون آیا کہنے لگا میں سوچ رہا ہوں مریم اور علی کو بھی یمنی اور ہادی کے ساتھ العین میں ہی داخل کروا دوں جب تک کہ میں پاکستان واپس نہیں آ جاتا۔ پھر جب اس نے مجھ سے سکول کی فیس پوچھی تو کہنے لگا، نہیں اتنی فیس تو میں افورڈ نہیں کر سکتا۔ خیر ہے جہاں باقی سب کے بچے ہیں میرے بچے بھی یہیں رہ لیں گے۔ میں نے لاکھ کہا کہ جیسے میرے بچے سکول جاتے ہیں مریم اور علی بھی چلے جائیں گے، فیس کی فکر نہیں کرو۔ مگر اس کی اناکو گوارا نہیں تھاکہ اس کے بچوں کی فیس کوئی اور دے۔ چنانچہ وہ اپنی فیملی کو اللہ کے حوالے کر کے لائبیریا چلاگیااور میں سوچنے لگی کہ حماد کے وہ کالج فیلوز جو گریجویشن کے بعد سول میں مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہوئے یا اپنی کمپنیاں کھولیں، وہ آج بہترین زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان کے فارم ہاؤسز ہیں۔ وہ ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں، ان کے پاس بہترین لگژری گاڑیاں ہیں۔ مختلف ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں ماشااللہ- اور اس کے مقابلے میں ایک فوجی کو اپنی ساری زندگی ایک ادارے کے نام کر نے کے عوض ریٹائرمنٹ پر جب ایک گھر ملتا ہے جس کے لئے وہ اپنی ساری زندگی پیسے جمع کرواتا رہتا ہے توہم اس پر کیوں اعتراض کرتے ہیں؟
حماد آخری دفعہ پچھلے سال جون میں سرکاری دورے پر چار پانچ دن کے لئے UAE آیا اس کا فون آیا کہ میں سوچ رہا ہوں العین کا چکر لگا لوں۔ آپ لوگ مجھے دبئی سے پک کر لیں، واپسی پر میں ٹیکسی پر آ جاؤں گا''۔ میں نے ہنس کر مذاق میں کہا ''حماد سرکاری مہمان ہو،تمہیں بہترین گاڑی ڈرائیور ملا ہو گا''۔ کہنے لگا ''جی وہ تو ملا ہے مگر یہ میرا ذاتی Trip ہے۔ اس لئے میں سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ دبئی میں بھی مجھے ایک گاڑی ملی ہے مگر میں باقی سب کے ساتھ ہی سفر کرتا ہوں''۔
حماد کے بعدحماد کے مہربان باس جب ابو جان کے پاس تعزیت کے لئے آئے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ حماد کبھی بھی اپنی ذات کے لئے کوئی Favorقبول نہیں کرتا تھااور ہمیشہ کہتا تھا کہ میرے والد نے مجھے سکھایا ہے کہ '' جس کے کھانے پہ بیٹھو گے، اس کے آنے پہ ا ٹھو گے۔"حماد ایک بہت دیانتدار اور لائق فوجی آفیسر تھا۔ وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ اس نے بڑے بڑے پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو بہت ترقی کرتا۔ یہ میرا یقین ہے۔جب حماد کی پوسٹنگ سیاچن میں تھی وہ ہم سب کی منت کرتا کہ ہم اس کو طویل خطوط لکھا کریں۔ کہتا وہاں وقت گزارنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ درجہ حرارت منفی ٥٠ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ سارا دن برف، تنہائی اور خاموشی۔ آپ لوگوں کے خطوط کئی کئی دفعہ پڑھتا ہوں۔ وہ خود بھی تفصیلاً خط لکھتا۔ اس کے کچھ ساتھی وہاں موسم کی صعوبتیں برداشت نہ کر پائے اور (High Altitude Pulmonary Edema) HAPE کا شکار ہو گئے۔ ان میں سے چند نے جام شہادت نوش کیا۔ جب انہیں یاد کرتا تو دکھی ہو جاتا۔ایک دن ہم واٹر پارک گئے۔ حماد اپنے بیٹے علی کو تیراکی سکھانا چاہتا تھا۔ حماد نے جب قمیض اتاری تو میں نے دیکھا کہ اس کی کمر جل کر سیاہ ہو چکی تھی میں نے بھابھی سے پوچھا کہ یہ کیا ہو ا ہے تو ہنس کر کہنے لگی کہ سیاچن کا تحفہ ہے۔ ''فراسٹ بائیٹ''۔
2012ء میں جب میں آسٹریلیا میں اپنی کتاب ''کلیسا میں اذان'' پر کام کر رہی تھی تو مجھے بار بار حماد کی مدد کی ضرورت پڑتی۔ اس وقت انٹرنیٹ پر زیادہ مواد دستیاب نہیں تھا۔ میں نے حماد سے کچھ کتابیں اور اردو بائبل منگوائی کیونکہ میری کتاب اسلام اور عیسائیت کے تقابلی جائزے سے متعلق تھی۔حماد نے بائیبل کو بہت عزت و احترام کے ساتھ قرآنی جزدان میں لپیٹ کر بھیجا۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا بائیبل بھی ہمارے لئے قابل احترام ہے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے۔میری کتاب میں ایک باب تھا ''بائیبل میں نام خدا …اللہ'' جس میں، میں نے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ قدیم بائیبل میں بھی خدا کا نام ''اللہ'' ہی ہے۔جب یہ باب مکمل ہو ا تو مجھے خیال آیا کہ اس کے آخر میں اللہ کے ننانوے نام اردو ترجمے کے ساتھ ہونے چاہیں۔ چنانچہ میں نے اپنا موبائل کھولا کہ گوگل کر کے دیکھتی ہوں۔ اچانک حماد کی ای میل سامنے آ گئی۔ سوچا کہ پہلے یہ دیکھ لیتی ہوں۔ کھولی تو دیکھا کہ حماد نے سمیع یوسف کی خوبصورت آواز میں پڑھے گئے ''اسماء الحسنیٰ'' بھیجے تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں نے تو ابھی ابھی سوچا تھا اسماء الحسنیٰ شامل کرنے کا اور حماد سے تو کبھی بھی اس باب کے بارے میں بات نہیں ہوئی تھی پھر اس کو کیسے خیال آیا؟ ۔ بس ہمارا تعلق کچھ ایسا ہی تھا۔جب میری کتاب مکمل ہوئی تو پروف ریڈنگ کے لئے حماد کو بھیجی۔ اس نے کچھ چیزیں مزید شامل کروائیں اور کچھ غیر ضروری کہہ کر کتاب سے نکلوا دیں۔ میں سمجھتی ہوں اس نے میری بہت اچھی رہنمائی کی۔ اللہ اس کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزم جاں میں--کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
2018 ہماری زندگیوں کا مشکل ترین سال تھا۔ اس سال حماد کا کینسر تشخیص ہوا۔ ابتدا میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ حماد کے پاس صرف چند ماہ ہیں مگر اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا کہ سرجری اور علاج کے ساتھ وہ کافی حد تک اپنی نارمل زندگی میں لوٹ آیا۔ حماد نے اپنی بیماری کو صبر، ہمت، حوصلے اور بہادری سے جھیلا۔ کبھی اس کی زبان سے اف کا لفظ نہیں سنا۔ وہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا۔ حال پوچھو تو اتنا زبردست بتاتا کہ ایک دن امی جان کہنے لگیں ایسے مت بتایا کروکہیں نظر نہ لگ جائے تو فوراً سورة الضحیٰ کی آیت پڑھی-و اما بنعمتہ ربک فحدث (اور ہر حال میں اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کیا کرو)اور کہنے لگا کہ یہ تواللہ کا حکم ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہیں۔
وہ باقاعدگی سے دفتر جاتا اور بلاناغہ ہر ویک اینڈ پر والدین سے ملنے آتا۔ حالانکہ رش زیادہ ہوتا تو آنے جانے میں تقریباًڈیڑھ سے دو گھنٹے لگ جاتے تھے۔ زندگی کا آخری اتوار بھی اس نے والدین کے پاس گزارا۔ وہ ہنستا مسکراتا جوک کرتا آتااور چلا جاتا۔ اس کی شخصیت اتنی دلفریب اور خوشگوار تھی کہ وہ جہاں جاتا ہر کوئی مسکرانے لگتاحتیٰ کہ ایک دن جب وہ ہسپتال میں داخل تھا تو ڈاکٹرز راؤنڈپر آئے۔ حماد نے کوئی جوک کیا تو ڈاکٹر ہنس کر بھابھی سے پوچھنے لگے کیا گھر میں بھی یہ ایسے ہی رہتے ہیں؟ رافعہ نے جواب دیا ''جی بالکل''--حماد کا تمام علاج سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہی ہوا۔ وہ اپنے علاج سے بہت مطمئن تھا۔ ہمیشہ ڈاکٹرز کی بہت تعریف کرتااور ان کا شکرگزاررہتا ۔ وہ ایک بہت محبت کرنے والا انسان تھا۔ میں نے اس کی تمام میڈیکل رپورٹس امریکہ، آسٹریلیا، یو کے اور یو اے ای کے بہترین ڈاکٹرز کو بھیجیں۔ ہر کسی نے یہی کہا کہ آپ انہیں دنیا کے کسی کونے میں بھی لے کر جائیں ان کا جوعلاج سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہو رہا ہے تقریباً یہی علاج ہر جگہ میسر ہے اور یہ کہ وہ بہترین ہاتھوں میں ہے۔ الحمد اللہ۔ اس کے لئے ہمارا پورا خاندان ڈاکٹرز کا احسان مند ہے۔
میری بیٹی یمنی جو کہ آرٹسٹ ہے، ایک دن وہ حماد کو کہنے لگی کہ میں آپ کا پورٹریٹ بنانا چاہتی ہوں مجھے اپنی کوئی تصویر دے دیں۔ فوراً کہنے لگا ، آپ کو قرآنی کیلیگرافی آتی ہے؟ اس نے کہا، جی نیٹ سے دیکھ کے کر لوں گی''۔ کہنے لگا میں نہیں چاہتا آپ میرا پورٹریٹ بناؤ بلکہ میں چاہتا ہوں آپ میری پسندیدہ آیت مجھے کینوس پر لکھ کر دو۔ اور وہ آیت ہے۔ وھومعکم این ماکنتم-(اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو)چنانچہ یمنی نے یہ آیت خوبصورت کیلیگرافی کر کے حماد کو تحفتاً دی جو آج بھی حماد کے لاؤنج میں آویزاں ہے۔حماد کی وفات کے بعد اس کی قبر کا کتبہ لکھنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی چنانچہ میں نے اس کی یہی پسندیدہ آیت اس کے کتبے پر لکھوائی۔ مجھے یقین ہے اللہ اس کے ساتھ ہے، وہ جہاں کہیں بھی ہے۔ایک دن وہ والدین سے ملنے آیا ہوا تھا۔کیمو کی وجہ سے اس کے پاؤں کی انگلیاں سوجی ہوئی تھیں اور ناخن گوشت میں پیوست ہو چکے تھے۔ انعام بھائی نے کہا حماد آپ کے پاؤں کے انگوٹھوں سے خون رس رہا ہے۔یہ تو کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ''حماد نے بڑے سکون سے جواب دیا ''جی جی سر کافی Painful ہے''۔میں نے کہا حماد اب صبح آرمی کے بھاری جوتے پہن کر آفس جاؤ گے، Excuse Shoes لے لو اور چپل پہن جاؤ۔ کہنے لگا ''جی اچھا نہیں لگتا، آرمی یونیفارم کے ساتھ چپل پہنوں۔ میں Manage کر لیتا ہوں، فکر نہ کریں''۔ بعد میں میں نے رافعہ سے پوچھاتو اس نے بتایا کہ روز صبح آفس جانے سے پہلے پاؤں دھو کر ایک ایک انگلی کی پٹی کرتا ہے۔پھر موزے پہن کر جوتے پہنتا ہے اور واپسی پر اسی طرح ایک ایک پٹی کھول کر پھر دوبارہ پاؤں دھوتا ہے۔ البتہ گھر میں سلیپر کے سوا کوئی جوتی نہیں پہن سکتا۔
حماد نے ہر تکلیف دلیری اور صبر سے برداشت کی۔ ہنستے مسکراتے ہوئے۔ کبھی ماتھے پر بل نہیں ڈالا۔ کبھی چہرے سے تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی ذرا سی تکلیف بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے۔
2018 میں کینسرکی تشخیص سے لے کروفات تک جب بھی حماد ہسپتال میں داخل ہوتاجواد اپنے سارے کام چھوڑچھاڑکر مظفرآبادسے راولپنڈی آ جاتا۔ اکثر سیدھاحماد کے پاس ہی پہنچتا ۔ اپنا سامان اس کے سامان کے ساتھ رکھ کر وہیں ڈیرہ ڈال لیتا۔ حماد کے ٹیسٹ وغیرہ ہوتے توہرجگہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا۔رات کوبھی جواد ہی ہسپتال میں اس کے پاس ہوتا۔ امی جان کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے حماد کو کہا کہ جویریہ اور جوادنے تمہاری بیماری میں تمہارا بہت ساتھ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسوآ گئے۔کہنے لگا میں ان کا قرض نہیں اتارسکتا۔ وفات سے ایک دن پہلے اس نے جواد کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ اللہ پاک اسکی تمام دعائیں قبول فرمائے آمین۔
ہم نے عمرے کے لئے جانا تھا۔ اسے بہت شوق تھا عمرے کے لئے جانے کا مگر صحت اجازت نہ دیتی تھی۔ وہ اکثر خواب میں قدیم مکہ اور قدیم کعبہ دیکھاکرتا۔ پچھلے عمرے اور حج کے واقعات بہت شوق سے دہراتا تھا۔ کہنے لگا میرے لئے دعا کیجیے گا کہ اللہ مجھے صحت دے اور میں عمرہ کر سکوں۔میری طرف سے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پیش کیجیے گا۔ پھر مسکر ا بہت محبت سے کہنے لگا ''میری طرف سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلیوٹ پیش کیجیے گا۔ ہم مدینہ پہنچے تو میں نے حماد کی طرف سے درودوسلام پیش کیا اور یمنی بیٹی نے پیارے نبی کو حماد کی طرف سے سلیوٹ کیا ۔ کچھ عرصے بعد جب حماد کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا اور فوجی دستے نے حمادکو سلیوٹ پیش کیا ، تو مجھے خیال آیا کہ شاید یہ محبت سے بھیجے گئے اسی سلیوٹ کی برکت تھی۔
حماد نے پوری زندگی کبھی کوئی نماز جان بوجھ کر نہیں چھوڑی ۔ سات گھنٹے کی طویل سرجری کے بعد جیسے ہی ہوش میں آیا فوراً تیمم کر کے سارے دن کی نمازیں پوری کیں۔ بچپن سے ہی و ہ پانچ وقت ابو جان کے ساتھ مسجد جاتا۔ اس کی عمر تین چار سال تھی۔ جب ایک دفعہ شدید سردی اور بارش میں ابو اس کو بتائے بغیر فجر کے لئے چلے گئے ۔ اس کی آنکھ کھلی تو ننگے پاؤں، بغیر سویٹر کے مسجد پہنچ گیا۔ واپسی پر ابو اس کو گود میں اٹھا کر لائے۔
اگست 2024 میں اس کو صحت کے لحاظ سے اکٹھے بہت سارے مسائل درپیش آ گئے۔ کچھ دواؤں کے اثرات اور کچھ بیماری کی پیچیدگیاں۔ اسے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ عید پر سب فیملی والے کھانے پر اکٹھے ہو رہے تھے۔ میں نے کہا حماد تم نہیں ہوگے تو تمہیں سب یاد کریں گے۔ وہ کچھ اداس تھا۔کہنے لگا''غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں''
میر ا دل کٹ کے رہ گیا۔ اس نے کبھی اپنی تکلیف کا اظہار جو نہیں کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جا رہا ہے اس کا Right Lung Collapse ہو چکا تھااور ساتھ دیگر مسائل بھی تھے۔ اس نے اقبال کا شعر پڑھا--میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روزوشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
Lung Collapse کی وجہ سے اس کو سانس لینے میں بڑی دشواری ہو رہی تھی۔ میں پریشان ہو گئی تو کہنے لگا '' نہیں جیا باجی یہ تو Blessing in Disguise ہے" ( یہ اس کا پسندیدہ جملہ تھا)۔ ''دیکھیں نہ وہ جو مجھے دائیں طرف سینے میں شدید درد تھی وہ بالکل ختم ہو گئی ہے اور کھانسی بھی تو کتنا تنگ کر رہی تھی اب وہ بھی نہیں ہو رہی''۔ میں نے کہا حماد سینے کا درد تو پہلے تم نے کبھی نہیں بتایاتو وہ مسکرانے لگا۔ ابھی وہ یہی باتیں کر رہا تھاکہ اس کو شدید کھانسی شروع ہو گئی۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ میں نہ آیامیں نے اس کے سینے پر دائیں جانب ہاتھ رکھ کر سورہ فاتحہ کا دم شروع کر دیا۔ اچانک وہ اٹھ کر باتھ روم گیا۔ کھانسی کے ساتھ کچھ جما ہوا ریشہ نکلا اور اس کی سانس بحال ہو گئی۔باہر نکلا تو خوشی سے کہنے لگا، آپ نے کیا پڑھا ہے میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں۔ میں نے فوراً نرسنگ اسٹیشن سے سٹیتھوسکوپ لے کر اس کی Chestسنی ۔ دونوں طرف سانس برابر آ رہا تھا۔اگلے دن ایکسرے کیا تو پتہ چلا دائیں پھیپھڑے نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔بعد میں کسی نے بتایا کہ فاتحہ کا مطلب ہی ہے ''کھولنا''۔ سورة فاتحہ بند چیزوں کو کھولتی ہے اور اس میں اللہ نے شفا رکھی ہے۔( حماد نے پھر کبھی نہیں کہا کہ سینے میں درد دوبارہ شروع ہوئی ہے یا نہیں)اب وہ کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ ہم لوگ قدرے مطمئن ہو گئے اور وہ بھی اپنے علاج سے مطمئن اور پرامید تھا۔ ایک دن میں کہنے لگی حماد کاش تم بیمار نہ ہوتے فوراً جواب دیا ''جی نہیں۔ بہت اچھا ہوا، اس بیماری نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا''۔ کہنے لگا اس کا بہت شکر ہے وہ مجھے جس حالت میں رکھے گا میں خوش ہوں۔
حماد کی دل موہ لینے والی فطرت کی وجہ سے ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا۔ وہ سینئرز جنہیں لوگ سخت مزاج اور اکھڑ سمجھتے تھے وہ بھی اس پر مہربان تھے۔ اکثر کہتا بس یہ اللہ کا احسان ہے۔ آسمان کی طرف انگلی کر کے محبت سے کہتا، وہ بیلی تو ہر کوئی بیلی۔ ان بیلی وی بیلی۔۔ وہ جانتا تھا اللہ اس کا بیلی، اس کا دوست، اس کا پیارا ہے۔
حماد دوستوں کا دوست اور یاروں کا یار تھا ۔ اس پر اللہ کا بہت کرم تھا کہ اللہ نے اس کو بے حد مخلص دوستوں سے نوازا تھا۔ وہ ہاسپیٹل میں داخل ہوتا تو اس کے ایک مسیج پر تمام دوست پہنچ جاتے اور گھنٹوں اس کو کمپنی دیتے، گپ شپ لگاتے۔ اس کے دوست ہر مشکل میں اس کے ساتھ کھڑے رہے حتیٰ کہ جب اس کی رات ایک بجے وفات ہوئی اس وقت بھی وہ سب ہسپتال میں موجود تھے۔ انہوں نے آخری سانس تک اس کا ساتھ نبھایا۔ ان میں عاصم ، حسن، جواد، ہارون، ہمایوں، ثاقب، رشید اور دیگر شامل ہیں۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے۔ ہمارے پاس ان کے لئے دعاؤں کے سوا کچھ نہیں۔
ایک دن جب حماد کو کیمو وارڈ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی تو ساتھ والے بیڈ پر ایک مریض کیمو کے لئے آیاجو کہ اپنا پرائیویٹ علاج کروا رہا تھا۔ جب اس کو Pre-Chemo لگانے کا کہا گیا تو اس نے کہا کہ میں صرف Chemo ہی لگواؤں گا Pre-Chemoرہنے دیں۔ (Pre-Chemoدراصل کیموتھراپی کے Side Effects کو کم کرنے کے لئے لگائی جاتی ہے تاکہ مریض کیمو کو نسبتاً آسانی سے برداشت کر لے)۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میں کیمو کےSide Effects برداشت کر لوں گا آپ بس کیمو لگا دیں۔ جب کیمو کی ڈرپ آدھی لگ گئی تو اس کو اتنی شدید الٹیاں اور متلی ہوئی کہ اس کو باقی آدھی ڈرپ چھوڑ کر جانا پڑاکیونکہ اس کےide Effects S برداشت سے باہرتھے۔حماد کی اپنی حالت اچھی نہیں تھی۔ بعد میں اس کو اندازہ ہوا کہ شاید اس مریض کے پاس کیمو کے پیسے تو تھے مگر Pre-Chemo کے پیسے نہیں تھے۔ یہ سوچ کر حماد کو بہت تکلیف ہوئی۔ چنانچہ جب اس نے مجھے بتایا تو ہم نے مل کر غریب مریضوں کے لئے ایک فنڈ قائم کیا جس میں حماد ہر مہینے اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ جمع کرواتا تھا اوراس کو مستحق مریضوں کی دوائی کے لئے استعمال کیا جاتا۔ اللہ پاک حماد کی اس کوشش کو قبول فرمائے ،آمین !!
حماد پورے خاندان میں سب کا پسندید ہ فرد تھا۔ اس نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی، کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ والدین کا فرمانبردار بیٹا تھا۔ وہ کچھ کہہ دیتے تو جیسے ان کا حکم پتھر پر لکیر ہوتا۔ ان کا ہر حکم بجا لاتا۔ اکثر کہتا امی ابو میری جنت ہیں۔ وہ بیمار ہوتے تو اپنی بیماری بھول کر ان کی خدمت میں لگ جاتا۔ ان کی ہر مشکل منٹوں میں حل کر لیتا۔ اپنی اسی خدمت کی بدولت اس نے والدین سے صبح شام ڈھیروں دعائیں سمیٹيں۔ وہ تہجد کے بعد ہم سب کے لئے اور ہمارے بچوں کے لئے دعائیں کرتا۔وہ میرا دوست میرا ہمدرد تھا۔ مجھے کبھی مشورے کی ضرورت ہوتی تو فوراً اس سے ہی پوچھتی۔ وہ ایک جملے میں میرا مسئلہ حل کر دیتا۔ اللہ نے اس کو بہت دانائی اور حکمت سے نوازا تھا۔ ہمیشہ بہترین رہنمائی کرتا۔ آپ کے کندھوں سے بھاری بوجھ ایک لمحے میں اتار دیتا۔ایک دن میں حماد کے پاس ہسپتال گئی۔ کہنے لگا "آج ایک عجیب واقع پیش آیا۔ صبح تہجد کے بعد جب میں نے ہاتھ اٹھائے تو یہ شعر میرے ذہن میں آ گیا۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی--میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بس یہی ایک شعر پڑھ کر میں نے آمین کہہ دیا۔ شام کو میجر وجاہت کہیں سے آگئے۔ میں تو ان سے پہلے کبھی نہیں ملا نہ ہی میں ان کو جانتا ہوں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ سر آپ کو کس نے میرے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اللہ کوئی نہ کوئی مسیحا بھیج دیتا ہے۔مجھے صبح دعا میں پڑھا ہوا شعر یاد آ گیا۔ وہ بہت نیک انسان ہیں۔ انہوں نے مجھ پر دم کیا اور اس کے بعد سے میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ الحمداللہ۔" اس کے بعد وہ اکثر حماد کے پاس آ جاتے۔
حماد نے وفات سے کچھ دن پہلے مجھے یہ کلام بھیجاتھا۔
ا یتھے جیویں جیویں راضی یار ہووے--تئیاں انج پلٹانیاں پیندیاں نے
ایتھے شاہی پوشاکاں نوں ساڑ کے تے--خاکاں سر وچ پانیاں پیندیاں نے
فیر چڑھ کے نیزے دی نوک عظمت--لائیاں توڑ نبھانیاں پیندیاں نے
یہ کلام اس کے حسب حال تھا، اس نے نیزے کی نوک پر محبتوں کو نبھایا تھا۔ اپنے پیارے رب، اپنے یارکو راضی کرنے کے لئے وہ آگ کے دریا سے ہنستا مسکراتا گزر گیاتھا اس لئے تو میں اس کو اللہ کا ولی کہتی تھی۔
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے---تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
فروری میں حماد کی طبیعت پھر کچھ بگڑ گئی۔ میں نے فون کر کے کہا ''حماد میں آرہی ہوں''۔ مجھے کہنے لگا ''خدا کا نام لیں جیا باجی، آرام سے بیٹھیں''۔ پھر تھوڑا توقف کر کے بولا ''جب آنا ہو گا آپ کو خود ہی خبر مل جائے گی''۔
اگلے ہی دن دس فروری کی صبح بھائی کا فون آ گیا کہ حماد کو آئی سی یو میں شفٹ کیا ہے، فوراً پہنچو۔میں نے اسی وقت ٹکٹ لیااور پاکستان پہنچ گئی۔ نیم وا آنکھوں سے حماد نے مجھے دیکھا اور پھر پوری آنکھیں کھول دیں ''آپ پھر آ گئی ہیں آپ کو چین نہیں آتا''۔ میں نے کہا ''ہاں کیا کروں چین ہی تو نہیں آتا''اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ زیادہ وقت غنودگی طاری رہتی۔جب بھی آنکھ کھلتی نمازیں پوری کرتا۔وفات سے ایک دن پہلے شام کوبوکھلا کر اٹھا۔ مجھ سے پوچھا ''وقت کیا ہو ا ہے؟'' میں نے کہا چھ بج کر بیس منٹ ''۔ پھر کوئی بات کہے بغیر تیمم کیا اور مغرب کی نماز پڑھی۔ میں نے کہا تم ٹھیک نہیں ہو عشاء کی نماز بھی ساتھ ہی پڑھ لو۔ اللہ نے آسانی دی ہے مگر کہنے لگا، نہیں عشا اپنے وقت پر پڑھوں گا۔ مغرب کے بعد حسب عادت موبائل پر سورة رحمن سنی جو کہ پچھلے کئی سالوں سے وہ مغرب کے وقت سنتا تھا۔ ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے وظائف کئے جو کہ وہ روزانہ مغرب کے بعد کیا کرتا تھا۔ پھر ہم نے بہت سی باتیں کیں۔
میں نے پوچھا حماد ICU میں کیسے شفٹ ہوئے؟ کہنے لگا ''بس جویریہ باجی اچانک سینے میں شدید درد ہوا۔پھر مجھے لگا میرا آخری وقت آ گیا ہے۔ میں نے بہترین کر کے اونچی آواز میں کئی بار کلمہ شہادت پڑھا پھر مجھے لگا کہ میری روح جسم سے پروا ز کر گئی ہے۔ وہاں نور ہی نور تھا۔ سبزہ ہی سبزہ تھا۔ نہ مجھے کوئی درد تھی نہ سانس کا کوئی مسئلہ ۔ مجھے لگا جیسے میں بالکل ہلکا ہو گیا ہوں۔ میں بے حد خوش اور مطمئن تھا۔ پھر جب میں Entry Point پر پہنچاتو مجھے واپس لوٹا دیا گیا۔ میں نے دیکھا تو نیچے امی کھڑی تھیں۔ مجھے لگا امی کی دعاؤں نے مجھے واپس بلا لیا''۔ وہ جذباتی ہو کر جذب کے عالم میں مجھے بتا رہا تھا '' بندہ کلمہ پڑھ لے تو ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں''۔ ایک لمحے میں آپ یہاں ہیں اور اگلے لمحے میں ادھر۔ بس اب یہی دعا ہے کہ جب اصل میں وقت آئے تو اللہ مجھے ضرور کلمہ نصیب کرے آمین''۔'' انسان سو سال بھی زندہ رہ لے، آخر کو واپس وہیں لوٹنا ہے، اللہ کے پاس'' اگلے دن جمعہ تھا۔ رات پھر اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ کبھی بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی، تو کبھی ہوش میں آ جاتا۔ جب معلوم ہوا کہ جواد جمعہ پڑھنے کے لئے جا رہا ہے تو فوراً کہنے لگا کہ میں بھی جاؤ ں گا۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا چنانچہ وہیں تیمم کر کے نماز پڑھی۔ زندگی کی وہ اس کی آخری نماز تھی پھر غنودگی طاری ہو گئی۔ کچھ دیر بعد جب ہوش آیاتو بھابھی نے دلیہ دیا۔ کچھ حیران سا ہو کر اس کو کہنے لگا ''ہم جنت میں ہیں؟'' بھابھی نے ہنس کر کہا ''جنت میں کیا ہم دلیہ کھائیں گے'' ۔ کہنے لگا'' Its too good to be true'' ۔ اس نے غنودگی کے عالم میں شاید کچھ ایسے مشاہدات کئے تھے جو وہ بیا ن نہیں کر پایا اور بس یہی ایک جملہ کہا۔ وہ بہت مطمئن تھا۔ اس کے بعد پھر نیند طاری ہو گئی۔ ڈاکٹرزکہہ چکے تھے کہ آج کی رات بہت بھاری ہے۔ میں ہسپتال میں ٹھہرنا چاہتی تھی مگر جواد نے کہا کہ والدین اکیلے ہیں تم گھر جاؤ۔ رات گیارہ بجے جب میں گھر پہنچی تو دیکھا کہ امی ابو شدید پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے لگا کہ جیسے وہ دو چھوٹے بچے ہوں، اور میں ان کی ماں۔ میں نے ان کو جھوٹی جھوٹی تسلیاں دیں کہ حماد اب بالکل ٹھیک ہے، Stable ہے اور پھر وہ کچھ مطمئن سے ہو گئے۔ وہ رات ہماری زندگی کی سب سے کڑی رات تھی۔ جب ایک بجے فون کی گھنٹی بجی تو دل خوف سے لرز گیا۔ دوسری طرف جواد تھاجس نے خبر دی کہ حماد ہمیں چھوڑ کر بہت دور چلا گیا ہے۔
جس سمے تم نے ساتھ چھوڑا تھا--وہ سمے چھوڑ کر نہیں جاتا
اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اور اس کے ہر فیصلے پر ہمارا سر تسلیم خم تھا۔
حماد ایک مثالی انسان تھا، وہ مثالی باپ تھا، مثالی بیٹا، مثالی شوہر، مثالی بھائی، مثالی دوست۔ وہ اللہ کا ولی تھا۔ اس نے خندہ پیشانی کے ساتھ اللہ کی طرف سے آئی ہر مشکل، ہر تکلیف کو ہنس کر برداشت کیا۔ اس کا جسم چھلنی تھامگر اس نے کبھی اف تک نہیں کی۔ اس نے مقام صبر کو مقام شکر بنایا۔ اس نے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے دکھ کو ایسے قبول کیا جیسے لوگ خوشیاں قبول کرتے ہیں، جیسے کوئی اللہ کا دیا ہو ا تحفہ ہو۔ وہ اکثر آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہتا--دکھ قبول محمد بخشاتے راضی رہن پیارے
اس کو شہادت کا شوق تھااور یہی شوق لے کر اس نے فوج جوائن کی تھی۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس کی شہادت قبول فرمائے۔ آمین
حماد کی وفات کے بعد حماد کی بیٹی مریم اور بیٹا علی اس کو اکثر خواب میں دیکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے مریم سے پوچھا کہ آپ نے پھر بابا کو خواب میں دیکھاتو کہنے لگی جی کچھ دن پہلے دیکھا۔ میرے اصرار پر اس نے اپنا خواب کچھ یوں سنایا۔'' کہتی ہے میں نے دیکھا کہ میں ایک Shooting Competition پر گئی ہوئی ہوں مگر میں دیکھتی ہوں کہ میری رائفل پرانی اور خراب ہو گئی ہے اور گولیاں بھی ختم ہیں۔ میں خواب میں بہت پریشان تھی کہ اتنے میں دیکھتی ہوں کہ بابا آسمان سے اترتے ہیں اور مجھے نئی رائفل اور ڈھیرساری گولیاں دے کرواپس چلے جاتے ہیں"۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ خواب کب دیکھاتو پتا چلا کہ مئی میں پاک بھارت معرکہ شروع ہونے سے دو دن پہلے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ حماد اور اس کے کئی ساتھی، شہدا، اور نیک لوگ اس جنگ میں روحانی طور پر شریک تھے۔ واللہ اعلم۔
حماد کے انتقال کے بعد اس سال اپریل میں جب حماد کی سالگرہ کا دن آیا تو سارے فیملی والے حماد کے گھر جمع تھے۔ رافعہ اتفاقاً اس کمرے میں گئی جہاں حماد کا آرمی یونیفارم لٹکا ہوا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ کمرہ ایک عجیب طرح کی مسحور کن خوشبو سے مہک رہا تھا۔ رافعہ نے سب کو بلایا تو ہر کسی نے محسوس کیاکہ وہ خوشبو حماد کے یونیفارم سے پھوٹ رہی تھی۔ سب لوگ آبدیدہ ہو گئے۔
چند دن پہلے حماد کے پی اے، قیوم صاحب نے حماد کو خواب میں دیکھا۔ حماد بہترین لباس میں ملبوس، درودپاک کی محفل میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا۔اس نے قیوم صاحب کو بہت نورانی چہروں اور اعلی شخصیت والے بزرگوں سے ملوایا اور کہا،"صاحب، کل سے نہیں، آج سے ہی آخرت کی تیاری شروع کر دیں۔" اور یہ کہ اس دنیا کی اہمیت آخرت کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی نہیں"
کشاد د ر دل سمجھتے ہیں اس کو--ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
وفات سے کچھ دن پہلے حماد نے مجھے کہا کہ، ''میں تو اللہ سے راضی ہوں پتا نہیں اللہ بھی مجھ سے راضی ہے یا نہیں''۔ تو میں نے کہا، ''جو اللہ سے راضی ، اللہ اس سے راضی''۔حماد کی وفات سے اگلے دن جب میں نے موبائل کھولاتو سب سے پہلے سورة فجر کی یہ آیات میرے سامنے آ گئیں جو ایک سال پہلے میں نے شیئر کی تھیں۔''اے مطمئن روح اپنے پروردگار کی طر ف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا''۔القرآن۔
مجھے لگا کہ یہ آیات حماد کے چند دن پہلے اٹھائے گئے سوال کا جواب تھیں
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر--کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر
آخری رات بچھڑتے ہوئے اس نے ہمیشہ کی طرح وہی جملہ دہرایا جو وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا، ''اچھا جیا باجی سوہنے رب دے حوالے''۔ یہی آخری جملہ تھا جو اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا۔''اچھا حماد …میرے پیارے بھائی، میرے دوست۔ سوہنے رب دے حوالے۔ تم بھی اور میں بھی، آج بھی اور کل بھی، جب ہم دوبارہ ملیں گے اور اس کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ۔۔ سوہنے رب دے حوالے--
اس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے
ياد رفتگاں
الوداع پیارے بھائی … بریگیڈئر حماد لطیف
ڈاکٹر جویریہ شجاع
شاید وہ میری زندگی کا سب سے مشکل سوال تھا، اور اس سے بھی مشکل اس کا جواب۔ صبح صبح فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جواد (بھائی) تھا۔ کہنے لگا ''جویریہ ڈاکٹرز پوچھ رہے ہیں کہ حماد کی طبیعت کسی بھی وقت زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ اگر ضرورت پڑی تو کیا حماد کا CPRکرنا ہے؟ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کو Ventilator پر ڈالنا پڑے، وہ لوگ Consentمانگ رہے ہیں کیا کہوں ان کو؟ میں بے جان سی ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔ حماد جا رہا تھا اور میں اس کی حالت سے بخوبی واقف تھی میں نے بمشکل جواب دیا …'' نہیں''۔ وہ کہنے لگا ''ہاں رافعہ (بھابھی) کا بھی یہی خیال ہے ''۔حماد … میرا چھوٹابھائی، میرا دوست، میرا ہمدرد۔ وہ بہنیں جن کے بھائی ان سے چھ سات سال چھوٹے ہوں گے وہ جانتی ہوں گی کہ چھوٹا بھائی پہلے بچے کی طرح ہوتا ہے جو آپ کے بچپن کی سب سے بڑی خوشی ہوتا ہے۔ آپ نے اس کا منہ ہاتھ دھلانے اورکنگھی کرنے سے لے کر، اسے چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر کھلانے تک اس کے سارے کام کئے ہوتے ہیں۔ پھر وہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اسے ہوم ورک کروانا، سبق یاد کروانا، امتحان کی تیاری کروانا، یہ تمام کام آپ ہی کے ذمے ہوتے ہیں اورحماد تو پھر حماد تھا۔ بلا کا ذہین ۔ مجھے اقبال کی شاعری پسند تھی اور حماد کا حافظہ بے مثال تھا۔ میں دو مرتبہ کلام اقبال اس کو سناتی تو اسے ازبر ہو جاتا۔ پانچ چھ سال کی عمر میں جب وہ سکول کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا--میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوہء آزری
کر م اے شہہ عرب و عجم ۖ، کہ کھڑے ہیں منتظر کرم--وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغ سکندری
اور--کھول آنکھ زمیں دیکھ ، فلک دیکھ فضا دیکھ--مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
جیسے مشکل کلام پڑھتا توہر کوئی ششدر رہ جاتا۔ وہ دوسری تیسری جماعت ہی میں تھا تو اس کو اقبال کا بہت سا کلام زبانی یاد تھا۔ جوش ملیح آبادی کی طویل نظم ''سورة رحمٰن کا منظوم ترجمہ''، بہت سے ترانے، نعتیں، قوالیاں اسے ازبر تھیں۔ سکول کے ادبی مقابلوں میں وہ جس ٹیم کے ساتھ ہوتا ان کی عید ہو جاتی۔ سکول میں وہ ''کلام اقبال والا حماد لطیف'' کے نام سے مشہور تھا۔ ہم طویل سفر پر روانہ ہوتے تو حماد کی دلچسپ باتوں میں سفر گزرنے کا پتہ بھی نہ چلتا۔ اس کی حس مزاح اور برجستہ جملے اس کو محفل کی جان بنا دیتے۔ہمارے بچپن میں لوگ ایک دوسرے سے بہت جڑے ہوتے تھے کیونکہ شاید ہم ایک دوسرے کے ساتھ بہت وقت بتاتے تھے۔ مظفرآباد کی شدید سردی میں جب بجلی چلی جاتی تو ہم گھنٹوں انگیٹھی جلا کر کمرے میں اکٹھے بیٹھ جاتے اور ڈھیروں باتیں کرتے۔ دستر خوان پر اکٹھے کھانا کھاتے۔ بہت ادب سے والدین کی سبق آموز کہانیاں اور نصیحتیں سنتے۔ بیت بازی، کسوٹی اور مختلف بورڈز گیمز کھیلتے۔ پورے دن میں پی ٹی وی پر کوئی ایک آدھ ہمارے مطلب کا پروگرام ہوتا تو خوب اہتمام سے دیکھتے۔ شام کو مل کر محلے کے بچوں کے ساتھ کھیلتے، بھاگتے، دوڑتے ، شور مچاتے اور پھر سرشام ہی تھک کر سو جاتے۔ اس سب میں حماد ہمارے گھر کی رونق تھا۔ ہماری جان تھا۔
ان کی محفل میں نصیر ! ان کے تبسم کی قسم--دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
چھٹی جماعت تک مظفرآباد کے پبلک سکول اور پھر نیلم سکول میں رہنے کے بعد گیارہ سال کی عمر میں اسے ایبٹ آباد پبلک سکول میں داخلہ مل گیا۔ اس کے بعد ہماری ملاقات چھٹیوں ہی میں ہوتی جب ہم تینوں بہن بھائی اپنے اپنے تعلیمی اداروں سے گھر آتے۔ میں جہاں جاتی میری پیچھے پیچھے پھرتا رہتا۔ اپنے ہاسٹل کی ایک ایک بات بتاتا۔ اپنے دوستوں کے قصے، اپنے ٹیچرز کی باتیں، اپنی شرارتیں ہر ہر بات شیئر کرتا۔ میں کنگھی کر رہی ہوتی تو برش میرے ہاتھ سے لے کر میری کنگھی کرتا اور چٹیا بھی بنا دیتا۔ اکثر اپنا میٹریس گھسیٹ کر میرے کمرے میں لے آتا اور رات دیر تک باتیں کرتا رہتا تھا۔ بھوک لگتی تو خود ہی آلو کے موٹے موٹے کتلے کاٹ کر فرائی کرتا اور ساتھ دہی میں چاٹ مصالحہ ڈال کر چٹنی تیار کر لیتا اور ہماری دعوت ہو جاتی۔ہاسٹل واپس جانے کا وقت آتااور اگر میں نے پہلے نکلنا ہوتاتو میری منت کرتا کہ پلیز پہلے میں چلا جاؤں پھر آپ نے جانا ہے۔ ایک ہی رٹ ہوتی ''جیا باجی نہ جائیں''۔ دنیا سے جاتے ہوئے بھی اس نے جلدی کی۔ کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ ایسی دنیا میں رہنا پڑے گا جس میں وہ نہیں ہو گا۔
حماد کی شادی ماموں کی بیٹی رافعہ سے طے پائی۔ یوں تو یہ ارینج میرج تھی مگر رافعہ اس کو ہمیشہ سے پسند تھی ان دنوں حماد کی پوسٹنگ سیالکوٹ میں تھی ۔ولیمے کی سادہ سی تقریب گھر کے صحن میں ہی منعقد کی گئی جس میں اس کے چند قریبی دوست اور خاندان کے افراد شامل تھے۔ وہ بہت خوش تھا ۔ اور ہمیشہ خوش رہا۔ موت سے چند دن پہلے بھی اس نے مجھے کہا کہ رافعہ نے ہر مشکل وقت میں میرا بڑاساتھ دیا ہے، میں اس سے بہت خوش ہوں''۔
فوج سے اس کو عشق تھا۔ اس نے اپنے شوق سے آرمی جوائن کی تھی۔ ملک کے خلاف وہ ایک لفظ بھی سننا پسند نہیں کرتا تھا۔اپنے لوگوں سے اسے بے پناہ محبت تھی۔ ایک دن کہنے لگا جب میں پاکستان سے باہر جاتا ہوں اور پھر واپسی پر جب پاکستان کی سرزمین پر جہاز لینڈ کر رہا ہوتا ہے تو میرا دل سکون، محبت اور خوشی سے بھر جاتا ہے۔ مجھے ا یسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پر اللہ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا سایہ ہے جو مجھے شدت سے محسوس ہوتا ہے، جس نے اس ملک کا برا سوچا اللہ نے اسے برباد کیا۔پھر مثالیں دے کر اپنی بات ثابت کرتا۔ایک دفعہ جب ملکی حالات بہت خراب تھے تو ہم نے اس کے لئے دبئی میں ایک بہترین جاب دیکھی مگر جب اس سے بات کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ پاک فوج اور پاکستان کو چھوڑ کر کہیں جاؤں گا، میرا جینا مرنا یہیں ہے۔ اس نے تو علاج کے لئے بھی پاکستان سے باہر جانے سے انکار کردیا۔
ان دنوں حماد کی پوسٹنگ شورش زدہ علاقوں میں تھی۔ حالات بے حد خراب تھے۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ابھی کوئی خبر آئے گی۔ چھٹیوں میں گھر آیا توکہنے لگا ''میں صدقہ گاڑی میں آگے بیٹھتا ہوں، ڈرائیور کے ساتھ۔ اس سے ڈرائیور کا مورال ہائی رہتا ہے''-میں نے حیرت سے پوچھا ''صدقہ گاڑی'' کیا ہوتی ہے۔ کہنے لگا "صدقہ گاڑی فوجی قافلے میں سب سے آگے جانے والی گاڑی ہوتی ہے جو باقی قافلے سے کچھ آگے فاصلہ رکھ کر چلتی ہے۔ آپ جانتی ہیں شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں نے جگہ جگہ بارودی سرنگیں نصب کر رکھی ہوتی ہیں یا رستے میں بم پلانٹ کر دیتے ہیں۔ یہ گاڑی سب سے آگے چلتی ہے اور اگر خدانخواستہ آگے بم یا بارودی سرنگ سے ٹکرا جائے تو خود تو تباہ ہو جاتی ہے مگر باقی قافلہ بچ جاتا ہے۔ہم نے اس کا نام صدقہ گاڑی رکھا ہوا ہے۔'' اور میں حیرت سے حماد کو دیکھنے لگی۔جب وہ واپس آیاتو حالات کافی بہتر ہو گئے تھے۔ کہنے لگا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہاں ہر چھ کلومیٹر پر ایک شہید ہے۔ میری یونٹ کے بھی بہت سے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کہنے لگا ہم نے ایک بندہ پکڑا جس کا کا م پاک فوج کے جوانوں، پولیس والوں اور عام لوگوں کو قتل کر کے ان کے گلے کاٹنا تھا۔ جب میں اس سے ملنے گیا تو مجھے دیکھ کر وہ تھر تھر کانپنے لگا میں نے پوچھا کہ '' تمہارے یہ ہاتھ معصوم انسانوں کا گلہ کاٹتے ہوئے کبھی نہیں کانپے؟'' مگر وہ میرے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ایک دفعہ بتانے لگا کہ کچھ دن پہلے ہی ہم نے ایک سوزوکی وین پکڑی ہے جو چھت تک بارود سے بھری ہوئی تھی اور اگر وہ پھٹ جاتی تو سینکڑوں لوگ شہید ہو جاتے۔ ان گاڑیوں ، اسلحہ اور بارود کے پیسے انڈیا ہی دیتا ہے۔ دہشت گردوں کو بھی ایک ایک بندہ قتل کر نے کا معاوضہ دیاجاتا ہے۔ انہوں نے بس ایک بیگ ہی جا کر کسی عوامی جگہ پر رکھنا ہوتا ہے۔ فوجی اور پولیس والے کو قتل کرنے کا معاوضہ زیاد ہ ملتا ہے۔اسلام آباد میں چینی باشندوں کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کو پکڑوانے میں بھی حماد کا اہم کردار تھا۔ بعد میں جب تقریباً تین سو دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کیا گیا اور ہزاروں کو افغانستان سے بلا کر کے پی کے میں آباد کیا گیا تو مجھے بے حد تکلیف ہوئی۔ میں جانتی تھی کہ ایک دہشت گرد کو پکڑنے کے لئے کبھی کبھی ہمارے کئی کئی جوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔حماد نے یو این مشن کے ساتھ لائبیریا جانا تھا۔ ان دنوں آرمی پبلک سکول والا واقعہ ہوا تھا اور وہ بہت پریشان تھا۔ اس کا فون آیا کہنے لگا میں سوچ رہا ہوں مریم اور علی کو بھی یمنی اور ہادی کے ساتھ العین میں ہی داخل کروا دوں جب تک کہ میں پاکستان واپس نہیں آ جاتا۔ پھر جب اس نے مجھ سے سکول کی فیس پوچھی تو کہنے لگا، نہیں اتنی فیس تو میں افورڈ نہیں کر سکتا۔ خیر ہے جہاں باقی سب کے بچے ہیں میرے بچے بھی یہیں رہ لیں گے۔ میں نے لاکھ کہا کہ جیسے میرے بچے سکول جاتے ہیں مریم اور علی بھی چلے جائیں گے، فیس کی فکر نہیں کرو۔ مگر اس کی اناکو گوارا نہیں تھاکہ اس کے بچوں کی فیس کوئی اور دے۔ چنانچہ وہ اپنی فیملی کو اللہ کے حوالے کر کے لائبیریا چلاگیااور میں سوچنے لگی کہ حماد کے وہ کالج فیلوز جو گریجویشن کے بعد سول میں مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہوئے یا اپنی کمپنیاں کھولیں، وہ آج بہترین زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ان کے فارم ہاؤسز ہیں۔ وہ ملکوں ملکوں سفر کرتے ہیں، ان کے پاس بہترین لگژری گاڑیاں ہیں۔ مختلف ملکوں میں ان کی جائیدادیں ہیں ماشااللہ- اور اس کے مقابلے میں ایک فوجی کو اپنی ساری زندگی ایک ادارے کے نام کر نے کے عوض ریٹائرمنٹ پر جب ایک گھر ملتا ہے جس کے لئے وہ اپنی ساری زندگی پیسے جمع کرواتا رہتا ہے توہم اس پر کیوں اعتراض کرتے ہیں؟
حماد آخری دفعہ پچھلے سال جون میں سرکاری دورے پر چار پانچ دن کے لئے UAE آیا اس کا فون آیا کہ میں سوچ رہا ہوں العین کا چکر لگا لوں۔ آپ لوگ مجھے دبئی سے پک کر لیں، واپسی پر میں ٹیکسی پر آ جاؤں گا''۔ میں نے ہنس کر مذاق میں کہا ''حماد سرکاری مہمان ہو،تمہیں بہترین گاڑی ڈرائیور ملا ہو گا''۔ کہنے لگا ''جی وہ تو ملا ہے مگر یہ میرا ذاتی Trip ہے۔ اس لئے میں سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ دبئی میں بھی مجھے ایک گاڑی ملی ہے مگر میں باقی سب کے ساتھ ہی سفر کرتا ہوں''۔
حماد کے بعدحماد کے مہربان باس جب ابو جان کے پاس تعزیت کے لئے آئے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ حماد کبھی بھی اپنی ذات کے لئے کوئی Favorقبول نہیں کرتا تھااور ہمیشہ کہتا تھا کہ میرے والد نے مجھے سکھایا ہے کہ '' جس کے کھانے پہ بیٹھو گے، اس کے آنے پہ ا ٹھو گے۔"حماد ایک بہت دیانتدار اور لائق فوجی آفیسر تھا۔ وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ اس نے بڑے بڑے پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو بہت ترقی کرتا۔ یہ میرا یقین ہے۔جب حماد کی پوسٹنگ سیاچن میں تھی وہ ہم سب کی منت کرتا کہ ہم اس کو طویل خطوط لکھا کریں۔ کہتا وہاں وقت گزارنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ درجہ حرارت منفی ٥٠ سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ سارا دن برف، تنہائی اور خاموشی۔ آپ لوگوں کے خطوط کئی کئی دفعہ پڑھتا ہوں۔ وہ خود بھی تفصیلاً خط لکھتا۔ اس کے کچھ ساتھی وہاں موسم کی صعوبتیں برداشت نہ کر پائے اور (High Altitude Pulmonary Edema) HAPE کا شکار ہو گئے۔ ان میں سے چند نے جام شہادت نوش کیا۔ جب انہیں یاد کرتا تو دکھی ہو جاتا۔ایک دن ہم واٹر پارک گئے۔ حماد اپنے بیٹے علی کو تیراکی سکھانا چاہتا تھا۔ حماد نے جب قمیض اتاری تو میں نے دیکھا کہ اس کی کمر جل کر سیاہ ہو چکی تھی میں نے بھابھی سے پوچھا کہ یہ کیا ہو ا ہے تو ہنس کر کہنے لگی کہ سیاچن کا تحفہ ہے۔ ''فراسٹ بائیٹ''۔
2012ء میں جب میں آسٹریلیا میں اپنی کتاب ''کلیسا میں اذان'' پر کام کر رہی تھی تو مجھے بار بار حماد کی مدد کی ضرورت پڑتی۔ اس وقت انٹرنیٹ پر زیادہ مواد دستیاب نہیں تھا۔ میں نے حماد سے کچھ کتابیں اور اردو بائبل منگوائی کیونکہ میری کتاب اسلام اور عیسائیت کے تقابلی جائزے سے متعلق تھی۔حماد نے بائیبل کو بہت عزت و احترام کے ساتھ قرآنی جزدان میں لپیٹ کر بھیجا۔ میں نے پوچھا تو کہنے لگا بائیبل بھی ہمارے لئے قابل احترام ہے کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے۔میری کتاب میں ایک باب تھا ''بائیبل میں نام خدا …اللہ'' جس میں، میں نے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ قدیم بائیبل میں بھی خدا کا نام ''اللہ'' ہی ہے۔جب یہ باب مکمل ہو ا تو مجھے خیال آیا کہ اس کے آخر میں اللہ کے ننانوے نام اردو ترجمے کے ساتھ ہونے چاہیں۔ چنانچہ میں نے اپنا موبائل کھولا کہ گوگل کر کے دیکھتی ہوں۔ اچانک حماد کی ای میل سامنے آ گئی۔ سوچا کہ پہلے یہ دیکھ لیتی ہوں۔ کھولی تو دیکھا کہ حماد نے سمیع یوسف کی خوبصورت آواز میں پڑھے گئے ''اسماء الحسنیٰ'' بھیجے تھے۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ میں نے تو ابھی ابھی سوچا تھا اسماء الحسنیٰ شامل کرنے کا اور حماد سے تو کبھی بھی اس باب کے بارے میں بات نہیں ہوئی تھی پھر اس کو کیسے خیال آیا؟ ۔ بس ہمارا تعلق کچھ ایسا ہی تھا۔جب میری کتاب مکمل ہوئی تو پروف ریڈنگ کے لئے حماد کو بھیجی۔ اس نے کچھ چیزیں مزید شامل کروائیں اور کچھ غیر ضروری کہہ کر کتاب سے نکلوا دیں۔ میں سمجھتی ہوں اس نے میری بہت اچھی رہنمائی کی۔ اللہ اس کو اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزم جاں میں--کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
2018 ہماری زندگیوں کا مشکل ترین سال تھا۔ اس سال حماد کا کینسر تشخیص ہوا۔ ابتدا میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ حماد کے پاس صرف چند ماہ ہیں مگر اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا کہ سرجری اور علاج کے ساتھ وہ کافی حد تک اپنی نارمل زندگی میں لوٹ آیا۔ حماد نے اپنی بیماری کو صبر، ہمت، حوصلے اور بہادری سے جھیلا۔ کبھی اس کی زبان سے اف کا لفظ نہیں سنا۔ وہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا۔ حال پوچھو تو اتنا زبردست بتاتا کہ ایک دن امی جان کہنے لگیں ایسے مت بتایا کروکہیں نظر نہ لگ جائے تو فوراً سورة الضحیٰ کی آیت پڑھی-و اما بنعمتہ ربک فحدث (اور ہر حال میں اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کیا کرو)اور کہنے لگا کہ یہ تواللہ کا حکم ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہیں۔
وہ باقاعدگی سے دفتر جاتا اور بلاناغہ ہر ویک اینڈ پر والدین سے ملنے آتا۔ حالانکہ رش زیادہ ہوتا تو آنے جانے میں تقریباًڈیڑھ سے دو گھنٹے لگ جاتے تھے۔ زندگی کا آخری اتوار بھی اس نے والدین کے پاس گزارا۔ وہ ہنستا مسکراتا جوک کرتا آتااور چلا جاتا۔ اس کی شخصیت اتنی دلفریب اور خوشگوار تھی کہ وہ جہاں جاتا ہر کوئی مسکرانے لگتاحتیٰ کہ ایک دن جب وہ ہسپتال میں داخل تھا تو ڈاکٹرز راؤنڈپر آئے۔ حماد نے کوئی جوک کیا تو ڈاکٹر ہنس کر بھابھی سے پوچھنے لگے کیا گھر میں بھی یہ ایسے ہی رہتے ہیں؟ رافعہ نے جواب دیا ''جی بالکل''--حماد کا تمام علاج سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہی ہوا۔ وہ اپنے علاج سے بہت مطمئن تھا۔ ہمیشہ ڈاکٹرز کی بہت تعریف کرتااور ان کا شکرگزاررہتا ۔ وہ ایک بہت محبت کرنے والا انسان تھا۔ میں نے اس کی تمام میڈیکل رپورٹس امریکہ، آسٹریلیا، یو کے اور یو اے ای کے بہترین ڈاکٹرز کو بھیجیں۔ ہر کسی نے یہی کہا کہ آپ انہیں دنیا کے کسی کونے میں بھی لے کر جائیں ان کا جوعلاج سی ایم ایچ راولپنڈی میں ہو رہا ہے تقریباً یہی علاج ہر جگہ میسر ہے اور یہ کہ وہ بہترین ہاتھوں میں ہے۔ الحمد اللہ۔ اس کے لئے ہمارا پورا خاندان ڈاکٹرز کا احسان مند ہے۔
میری بیٹی یمنی جو کہ آرٹسٹ ہے، ایک دن وہ حماد کو کہنے لگی کہ میں آپ کا پورٹریٹ بنانا چاہتی ہوں مجھے اپنی کوئی تصویر دے دیں۔ فوراً کہنے لگا ، آپ کو قرآنی کیلیگرافی آتی ہے؟ اس نے کہا، جی نیٹ سے دیکھ کے کر لوں گی''۔ کہنے لگا میں نہیں چاہتا آپ میرا پورٹریٹ بناؤ بلکہ میں چاہتا ہوں آپ میری پسندیدہ آیت مجھے کینوس پر لکھ کر دو۔ اور وہ آیت ہے۔ وھومعکم این ماکنتم-(اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو)چنانچہ یمنی نے یہ آیت خوبصورت کیلیگرافی کر کے حماد کو تحفتاً دی جو آج بھی حماد کے لاؤنج میں آویزاں ہے۔حماد کی وفات کے بعد اس کی قبر کا کتبہ لکھنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی چنانچہ میں نے اس کی یہی پسندیدہ آیت اس کے کتبے پر لکھوائی۔ مجھے یقین ہے اللہ اس کے ساتھ ہے، وہ جہاں کہیں بھی ہے۔ایک دن وہ والدین سے ملنے آیا ہوا تھا۔کیمو کی وجہ سے اس کے پاؤں کی انگلیاں سوجی ہوئی تھیں اور ناخن گوشت میں پیوست ہو چکے تھے۔ انعام بھائی نے کہا حماد آپ کے پاؤں کے انگوٹھوں سے خون رس رہا ہے۔یہ تو کافی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ''حماد نے بڑے سکون سے جواب دیا ''جی جی سر کافی Painful ہے''۔میں نے کہا حماد اب صبح آرمی کے بھاری جوتے پہن کر آفس جاؤ گے، Excuse Shoes لے لو اور چپل پہن جاؤ۔ کہنے لگا ''جی اچھا نہیں لگتا، آرمی یونیفارم کے ساتھ چپل پہنوں۔ میں Manage کر لیتا ہوں، فکر نہ کریں''۔ بعد میں میں نے رافعہ سے پوچھاتو اس نے بتایا کہ روز صبح آفس جانے سے پہلے پاؤں دھو کر ایک ایک انگلی کی پٹی کرتا ہے۔پھر موزے پہن کر جوتے پہنتا ہے اور واپسی پر اسی طرح ایک ایک پٹی کھول کر پھر دوبارہ پاؤں دھوتا ہے۔ البتہ گھر میں سلیپر کے سوا کوئی جوتی نہیں پہن سکتا۔
حماد نے ہر تکلیف دلیری اور صبر سے برداشت کی۔ ہنستے مسکراتے ہوئے۔ کبھی ماتھے پر بل نہیں ڈالا۔ کبھی چہرے سے تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی ذرا سی تکلیف بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے۔
2018 میں کینسرکی تشخیص سے لے کروفات تک جب بھی حماد ہسپتال میں داخل ہوتاجواد اپنے سارے کام چھوڑچھاڑکر مظفرآبادسے راولپنڈی آ جاتا۔ اکثر سیدھاحماد کے پاس ہی پہنچتا ۔ اپنا سامان اس کے سامان کے ساتھ رکھ کر وہیں ڈیرہ ڈال لیتا۔ حماد کے ٹیسٹ وغیرہ ہوتے توہرجگہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا۔رات کوبھی جواد ہی ہسپتال میں اس کے پاس ہوتا۔ امی جان کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے حماد کو کہا کہ جویریہ اور جوادنے تمہاری بیماری میں تمہارا بہت ساتھ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسوآ گئے۔کہنے لگا میں ان کا قرض نہیں اتارسکتا۔ وفات سے ایک دن پہلے اس نے جواد کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ڈھیروں دعائیں دیں۔ اللہ پاک اسکی تمام دعائیں قبول فرمائے آمین۔
ہم نے عمرے کے لئے جانا تھا۔ اسے بہت شوق تھا عمرے کے لئے جانے کا مگر صحت اجازت نہ دیتی تھی۔ وہ اکثر خواب میں قدیم مکہ اور قدیم کعبہ دیکھاکرتا۔ پچھلے عمرے اور حج کے واقعات بہت شوق سے دہراتا تھا۔ کہنے لگا میرے لئے دعا کیجیے گا کہ اللہ مجھے صحت دے اور میں عمرہ کر سکوں۔میری طرف سے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام پیش کیجیے گا۔ پھر مسکر ا بہت محبت سے کہنے لگا ''میری طرف سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلیوٹ پیش کیجیے گا۔ ہم مدینہ پہنچے تو میں نے حماد کی طرف سے درودوسلام پیش کیا اور یمنی بیٹی نے پیارے نبی کو حماد کی طرف سے سلیوٹ کیا ۔ کچھ عرصے بعد جب حماد کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا اور فوجی دستے نے حمادکو سلیوٹ پیش کیا ، تو مجھے خیال آیا کہ شاید یہ محبت سے بھیجے گئے اسی سلیوٹ کی برکت تھی۔
حماد نے پوری زندگی کبھی کوئی نماز جان بوجھ کر نہیں چھوڑی ۔ سات گھنٹے کی طویل سرجری کے بعد جیسے ہی ہوش میں آیا فوراً تیمم کر کے سارے دن کی نمازیں پوری کیں۔ بچپن سے ہی و ہ پانچ وقت ابو جان کے ساتھ مسجد جاتا۔ اس کی عمر تین چار سال تھی۔ جب ایک دفعہ شدید سردی اور بارش میں ابو اس کو بتائے بغیر فجر کے لئے چلے گئے ۔ اس کی آنکھ کھلی تو ننگے پاؤں، بغیر سویٹر کے مسجد پہنچ گیا۔ واپسی پر ابو اس کو گود میں اٹھا کر لائے۔
اگست 2024 میں اس کو صحت کے لحاظ سے اکٹھے بہت سارے مسائل درپیش آ گئے۔ کچھ دواؤں کے اثرات اور کچھ بیماری کی پیچیدگیاں۔ اسے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ عید پر سب فیملی والے کھانے پر اکٹھے ہو رہے تھے۔ میں نے کہا حماد تم نہیں ہوگے تو تمہیں سب یاد کریں گے۔ وہ کچھ اداس تھا۔کہنے لگا''غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں''
میر ا دل کٹ کے رہ گیا۔ اس نے کبھی اپنی تکلیف کا اظہار جو نہیں کیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جا رہا ہے اس کا Right Lung Collapse ہو چکا تھااور ساتھ دیگر مسائل بھی تھے۔ اس نے اقبال کا شعر پڑھا--میری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح روزوشب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
Lung Collapse کی وجہ سے اس کو سانس لینے میں بڑی دشواری ہو رہی تھی۔ میں پریشان ہو گئی تو کہنے لگا '' نہیں جیا باجی یہ تو Blessing in Disguise ہے" ( یہ اس کا پسندیدہ جملہ تھا)۔ ''دیکھیں نہ وہ جو مجھے دائیں طرف سینے میں شدید درد تھی وہ بالکل ختم ہو گئی ہے اور کھانسی بھی تو کتنا تنگ کر رہی تھی اب وہ بھی نہیں ہو رہی''۔ میں نے کہا حماد سینے کا درد تو پہلے تم نے کبھی نہیں بتایاتو وہ مسکرانے لگا۔ ابھی وہ یہی باتیں کر رہا تھاکہ اس کو شدید کھانسی شروع ہو گئی۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ میں نہ آیامیں نے اس کے سینے پر دائیں جانب ہاتھ رکھ کر سورہ فاتحہ کا دم شروع کر دیا۔ اچانک وہ اٹھ کر باتھ روم گیا۔ کھانسی کے ساتھ کچھ جما ہوا ریشہ نکلا اور اس کی سانس بحال ہو گئی۔باہر نکلا تو خوشی سے کہنے لگا، آپ نے کیا پڑھا ہے میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں۔ میں نے فوراً نرسنگ اسٹیشن سے سٹیتھوسکوپ لے کر اس کی Chestسنی ۔ دونوں طرف سانس برابر آ رہا تھا۔اگلے دن ایکسرے کیا تو پتہ چلا دائیں پھیپھڑے نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا ہے۔بعد میں کسی نے بتایا کہ فاتحہ کا مطلب ہی ہے ''کھولنا''۔ سورة فاتحہ بند چیزوں کو کھولتی ہے اور اس میں اللہ نے شفا رکھی ہے۔( حماد نے پھر کبھی نہیں کہا کہ سینے میں درد دوبارہ شروع ہوئی ہے یا نہیں)اب وہ کافی بہتر محسوس کر رہا تھا۔ ہم لوگ قدرے مطمئن ہو گئے اور وہ بھی اپنے علاج سے مطمئن اور پرامید تھا۔ ایک دن میں کہنے لگی حماد کاش تم بیمار نہ ہوتے فوراً جواب دیا ''جی نہیں۔ بہت اچھا ہوا، اس بیماری نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا''۔ کہنے لگا اس کا بہت شکر ہے وہ مجھے جس حالت میں رکھے گا میں خوش ہوں۔
حماد کی دل موہ لینے والی فطرت کی وجہ سے ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا۔ وہ سینئرز جنہیں لوگ سخت مزاج اور اکھڑ سمجھتے تھے وہ بھی اس پر مہربان تھے۔ اکثر کہتا بس یہ اللہ کا احسان ہے۔ آسمان کی طرف انگلی کر کے محبت سے کہتا، وہ بیلی تو ہر کوئی بیلی۔ ان بیلی وی بیلی۔۔ وہ جانتا تھا اللہ اس کا بیلی، اس کا دوست، اس کا پیارا ہے۔
حماد دوستوں کا دوست اور یاروں کا یار تھا ۔ اس پر اللہ کا بہت کرم تھا کہ اللہ نے اس کو بے حد مخلص دوستوں سے نوازا تھا۔ وہ ہاسپیٹل میں داخل ہوتا تو اس کے ایک مسیج پر تمام دوست پہنچ جاتے اور گھنٹوں اس کو کمپنی دیتے، گپ شپ لگاتے۔ اس کے دوست ہر مشکل میں اس کے ساتھ کھڑے رہے حتیٰ کہ جب اس کی رات ایک بجے وفات ہوئی اس وقت بھی وہ سب ہسپتال میں موجود تھے۔ انہوں نے آخری سانس تک اس کا ساتھ نبھایا۔ ان میں عاصم ، حسن، جواد، ہارون، ہمایوں، ثاقب، رشید اور دیگر شامل ہیں۔ اللہ ان کو اس کا اجر دے۔ ہمارے پاس ان کے لئے دعاؤں کے سوا کچھ نہیں۔
ایک دن جب حماد کو کیمو وارڈ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی تو ساتھ والے بیڈ پر ایک مریض کیمو کے لئے آیاجو کہ اپنا پرائیویٹ علاج کروا رہا تھا۔ جب اس کو Pre-Chemo لگانے کا کہا گیا تو اس نے کہا کہ میں صرف Chemo ہی لگواؤں گا Pre-Chemoرہنے دیں۔ (Pre-Chemoدراصل کیموتھراپی کے Side Effects کو کم کرنے کے لئے لگائی جاتی ہے تاکہ مریض کیمو کو نسبتاً آسانی سے برداشت کر لے)۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میں کیمو کےSide Effects برداشت کر لوں گا آپ بس کیمو لگا دیں۔ جب کیمو کی ڈرپ آدھی لگ گئی تو اس کو اتنی شدید الٹیاں اور متلی ہوئی کہ اس کو باقی آدھی ڈرپ چھوڑ کر جانا پڑاکیونکہ اس کےide Effects S برداشت سے باہرتھے۔حماد کی اپنی حالت اچھی نہیں تھی۔ بعد میں اس کو اندازہ ہوا کہ شاید اس مریض کے پاس کیمو کے پیسے تو تھے مگر Pre-Chemo کے پیسے نہیں تھے۔ یہ سوچ کر حماد کو بہت تکلیف ہوئی۔ چنانچہ جب اس نے مجھے بتایا تو ہم نے مل کر غریب مریضوں کے لئے ایک فنڈ قائم کیا جس میں حماد ہر مہینے اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ جمع کرواتا تھا اوراس کو مستحق مریضوں کی دوائی کے لئے استعمال کیا جاتا۔ اللہ پاک حماد کی اس کوشش کو قبول فرمائے ،آمین !!
حماد پورے خاندان میں سب کا پسندید ہ فرد تھا۔ اس نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی، کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی۔ والدین کا فرمانبردار بیٹا تھا۔ وہ کچھ کہہ دیتے تو جیسے ان کا حکم پتھر پر لکیر ہوتا۔ ان کا ہر حکم بجا لاتا۔ اکثر کہتا امی ابو میری جنت ہیں۔ وہ بیمار ہوتے تو اپنی بیماری بھول کر ان کی خدمت میں لگ جاتا۔ ان کی ہر مشکل منٹوں میں حل کر لیتا۔ اپنی اسی خدمت کی بدولت اس نے والدین سے صبح شام ڈھیروں دعائیں سمیٹيں۔ وہ تہجد کے بعد ہم سب کے لئے اور ہمارے بچوں کے لئے دعائیں کرتا۔وہ میرا دوست میرا ہمدرد تھا۔ مجھے کبھی مشورے کی ضرورت ہوتی تو فوراً اس سے ہی پوچھتی۔ وہ ایک جملے میں میرا مسئلہ حل کر دیتا۔ اللہ نے اس کو بہت دانائی اور حکمت سے نوازا تھا۔ ہمیشہ بہترین رہنمائی کرتا۔ آپ کے کندھوں سے بھاری بوجھ ایک لمحے میں اتار دیتا۔ایک دن میں حماد کے پاس ہسپتال گئی۔ کہنے لگا "آج ایک عجیب واقع پیش آیا۔ صبح تہجد کے بعد جب میں نے ہاتھ اٹھائے تو یہ شعر میرے ذہن میں آ گیا۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی--میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بس یہی ایک شعر پڑھ کر میں نے آمین کہہ دیا۔ شام کو میجر وجاہت کہیں سے آگئے۔ میں تو ان سے پہلے کبھی نہیں ملا نہ ہی میں ان کو جانتا ہوں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ سر آپ کو کس نے میرے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اللہ کوئی نہ کوئی مسیحا بھیج دیتا ہے۔مجھے صبح دعا میں پڑھا ہوا شعر یاد آ گیا۔ وہ بہت نیک انسان ہیں۔ انہوں نے مجھ پر دم کیا اور اس کے بعد سے میں بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ الحمداللہ۔" اس کے بعد وہ اکثر حماد کے پاس آ جاتے۔
حماد نے وفات سے کچھ دن پہلے مجھے یہ کلام بھیجاتھا۔
ا یتھے جیویں جیویں راضی یار ہووے--تئیاں انج پلٹانیاں پیندیاں نے
ایتھے شاہی پوشاکاں نوں ساڑ کے تے--خاکاں سر وچ پانیاں پیندیاں نے
فیر چڑھ کے نیزے دی نوک عظمت--لائیاں توڑ نبھانیاں پیندیاں نے
یہ کلام اس کے حسب حال تھا، اس نے نیزے کی نوک پر محبتوں کو نبھایا تھا۔ اپنے پیارے رب، اپنے یارکو راضی کرنے کے لئے وہ آگ کے دریا سے ہنستا مسکراتا گزر گیاتھا اس لئے تو میں اس کو اللہ کا ولی کہتی تھی۔
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے---تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
فروری میں حماد کی طبیعت پھر کچھ بگڑ گئی۔ میں نے فون کر کے کہا ''حماد میں آرہی ہوں''۔ مجھے کہنے لگا ''خدا کا نام لیں جیا باجی، آرام سے بیٹھیں''۔ پھر تھوڑا توقف کر کے بولا ''جب آنا ہو گا آپ کو خود ہی خبر مل جائے گی''۔
اگلے ہی دن دس فروری کی صبح بھائی کا فون آ گیا کہ حماد کو آئی سی یو میں شفٹ کیا ہے، فوراً پہنچو۔میں نے اسی وقت ٹکٹ لیااور پاکستان پہنچ گئی۔ نیم وا آنکھوں سے حماد نے مجھے دیکھا اور پھر پوری آنکھیں کھول دیں ''آپ پھر آ گئی ہیں آپ کو چین نہیں آتا''۔ میں نے کہا ''ہاں کیا کروں چین ہی تو نہیں آتا''اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ زیادہ وقت غنودگی طاری رہتی۔جب بھی آنکھ کھلتی نمازیں پوری کرتا۔وفات سے ایک دن پہلے شام کوبوکھلا کر اٹھا۔ مجھ سے پوچھا ''وقت کیا ہو ا ہے؟'' میں نے کہا چھ بج کر بیس منٹ ''۔ پھر کوئی بات کہے بغیر تیمم کیا اور مغرب کی نماز پڑھی۔ میں نے کہا تم ٹھیک نہیں ہو عشاء کی نماز بھی ساتھ ہی پڑھ لو۔ اللہ نے آسانی دی ہے مگر کہنے لگا، نہیں عشا اپنے وقت پر پڑھوں گا۔ مغرب کے بعد حسب عادت موبائل پر سورة رحمن سنی جو کہ پچھلے کئی سالوں سے وہ مغرب کے وقت سنتا تھا۔ ساتھ ساتھ پڑھ بھی رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے وظائف کئے جو کہ وہ روزانہ مغرب کے بعد کیا کرتا تھا۔ پھر ہم نے بہت سی باتیں کیں۔
میں نے پوچھا حماد ICU میں کیسے شفٹ ہوئے؟ کہنے لگا ''بس جویریہ باجی اچانک سینے میں شدید درد ہوا۔پھر مجھے لگا میرا آخری وقت آ گیا ہے۔ میں نے بہترین کر کے اونچی آواز میں کئی بار کلمہ شہادت پڑھا پھر مجھے لگا کہ میری روح جسم سے پروا ز کر گئی ہے۔ وہاں نور ہی نور تھا۔ سبزہ ہی سبزہ تھا۔ نہ مجھے کوئی درد تھی نہ سانس کا کوئی مسئلہ ۔ مجھے لگا جیسے میں بالکل ہلکا ہو گیا ہوں۔ میں بے حد خوش اور مطمئن تھا۔ پھر جب میں Entry Point پر پہنچاتو مجھے واپس لوٹا دیا گیا۔ میں نے دیکھا تو نیچے امی کھڑی تھیں۔ مجھے لگا امی کی دعاؤں نے مجھے واپس بلا لیا''۔ وہ جذباتی ہو کر جذب کے عالم میں مجھے بتا رہا تھا '' بندہ کلمہ پڑھ لے تو ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں''۔ ایک لمحے میں آپ یہاں ہیں اور اگلے لمحے میں ادھر۔ بس اب یہی دعا ہے کہ جب اصل میں وقت آئے تو اللہ مجھے ضرور کلمہ نصیب کرے آمین''۔'' انسان سو سال بھی زندہ رہ لے، آخر کو واپس وہیں لوٹنا ہے، اللہ کے پاس'' اگلے دن جمعہ تھا۔ رات پھر اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ کبھی بے ہوشی کی کیفیت طاری ہو جاتی، تو کبھی ہوش میں آ جاتا۔ جب معلوم ہوا کہ جواد جمعہ پڑھنے کے لئے جا رہا ہے تو فوراً کہنے لگا کہ میں بھی جاؤ ں گا۔ مگر یہ ممکن نہیں تھا چنانچہ وہیں تیمم کر کے نماز پڑھی۔ زندگی کی وہ اس کی آخری نماز تھی پھر غنودگی طاری ہو گئی۔ کچھ دیر بعد جب ہوش آیاتو بھابھی نے دلیہ دیا۔ کچھ حیران سا ہو کر اس کو کہنے لگا ''ہم جنت میں ہیں؟'' بھابھی نے ہنس کر کہا ''جنت میں کیا ہم دلیہ کھائیں گے'' ۔ کہنے لگا'' Its too good to be true'' ۔ اس نے غنودگی کے عالم میں شاید کچھ ایسے مشاہدات کئے تھے جو وہ بیا ن نہیں کر پایا اور بس یہی ایک جملہ کہا۔ وہ بہت مطمئن تھا۔ اس کے بعد پھر نیند طاری ہو گئی۔ ڈاکٹرزکہہ چکے تھے کہ آج کی رات بہت بھاری ہے۔ میں ہسپتال میں ٹھہرنا چاہتی تھی مگر جواد نے کہا کہ والدین اکیلے ہیں تم گھر جاؤ۔ رات گیارہ بجے جب میں گھر پہنچی تو دیکھا کہ امی ابو شدید پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے لگا کہ جیسے وہ دو چھوٹے بچے ہوں، اور میں ان کی ماں۔ میں نے ان کو جھوٹی جھوٹی تسلیاں دیں کہ حماد اب بالکل ٹھیک ہے، Stable ہے اور پھر وہ کچھ مطمئن سے ہو گئے۔ وہ رات ہماری زندگی کی سب سے کڑی رات تھی۔ جب ایک بجے فون کی گھنٹی بجی تو دل خوف سے لرز گیا۔ دوسری طرف جواد تھاجس نے خبر دی کہ حماد ہمیں چھوڑ کر بہت دور چلا گیا ہے۔
جس سمے تم نے ساتھ چھوڑا تھا--وہ سمے چھوڑ کر نہیں جاتا
اللہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا اور اس کے ہر فیصلے پر ہمارا سر تسلیم خم تھا۔
حماد ایک مثالی انسان تھا، وہ مثالی باپ تھا، مثالی بیٹا، مثالی شوہر، مثالی بھائی، مثالی دوست۔ وہ اللہ کا ولی تھا۔ اس نے خندہ پیشانی کے ساتھ اللہ کی طرف سے آئی ہر مشکل، ہر تکلیف کو ہنس کر برداشت کیا۔ اس کا جسم چھلنی تھامگر اس نے کبھی اف تک نہیں کی۔ اس نے مقام صبر کو مقام شکر بنایا۔ اس نے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے دکھ کو ایسے قبول کیا جیسے لوگ خوشیاں قبول کرتے ہیں، جیسے کوئی اللہ کا دیا ہو ا تحفہ ہو۔ وہ اکثر آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہتا--دکھ قبول محمد بخشاتے راضی رہن پیارے
اس کو شہادت کا شوق تھااور یہی شوق لے کر اس نے فوج جوائن کی تھی۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس کی شہادت قبول فرمائے۔ آمین
حماد کی وفات کے بعد حماد کی بیٹی مریم اور بیٹا علی اس کو اکثر خواب میں دیکھتے ہیں۔ ایک دن میں نے مریم سے پوچھا کہ آپ نے پھر بابا کو خواب میں دیکھاتو کہنے لگی جی کچھ دن پہلے دیکھا۔ میرے اصرار پر اس نے اپنا خواب کچھ یوں سنایا۔'' کہتی ہے میں نے دیکھا کہ میں ایک Shooting Competition پر گئی ہوئی ہوں مگر میں دیکھتی ہوں کہ میری رائفل پرانی اور خراب ہو گئی ہے اور گولیاں بھی ختم ہیں۔ میں خواب میں بہت پریشان تھی کہ اتنے میں دیکھتی ہوں کہ بابا آسمان سے اترتے ہیں اور مجھے نئی رائفل اور ڈھیرساری گولیاں دے کرواپس چلے جاتے ہیں"۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ خواب کب دیکھاتو پتا چلا کہ مئی میں پاک بھارت معرکہ شروع ہونے سے دو دن پہلے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ حماد اور اس کے کئی ساتھی، شہدا، اور نیک لوگ اس جنگ میں روحانی طور پر شریک تھے۔ واللہ اعلم۔
حماد کے انتقال کے بعد اس سال اپریل میں جب حماد کی سالگرہ کا دن آیا تو سارے فیملی والے حماد کے گھر جمع تھے۔ رافعہ اتفاقاً اس کمرے میں گئی جہاں حماد کا آرمی یونیفارم لٹکا ہوا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ کمرہ ایک عجیب طرح کی مسحور کن خوشبو سے مہک رہا تھا۔ رافعہ نے سب کو بلایا تو ہر کسی نے محسوس کیاکہ وہ خوشبو حماد کے یونیفارم سے پھوٹ رہی تھی۔ سب لوگ آبدیدہ ہو گئے۔
چند دن پہلے حماد کے پی اے، قیوم صاحب نے حماد کو خواب میں دیکھا۔ حماد بہترین لباس میں ملبوس، درودپاک کی محفل میں تکیہ لگائے بیٹھا تھا۔اس نے قیوم صاحب کو بہت نورانی چہروں اور اعلی شخصیت والے بزرگوں سے ملوایا اور کہا،"صاحب، کل سے نہیں، آج سے ہی آخرت کی تیاری شروع کر دیں۔" اور یہ کہ اس دنیا کی اہمیت آخرت کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی نہیں"
کشاد د ر دل سمجھتے ہیں اس کو--ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
وفات سے کچھ دن پہلے حماد نے مجھے کہا کہ، ''میں تو اللہ سے راضی ہوں پتا نہیں اللہ بھی مجھ سے راضی ہے یا نہیں''۔ تو میں نے کہا، ''جو اللہ سے راضی ، اللہ اس سے راضی''۔حماد کی وفات سے اگلے دن جب میں نے موبائل کھولاتو سب سے پہلے سورة فجر کی یہ آیات میرے سامنے آ گئیں جو ایک سال پہلے میں نے شیئر کی تھیں۔''اے مطمئن روح اپنے پروردگار کی طر ف لوٹ چل۔ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا''۔القرآن۔
مجھے لگا کہ یہ آیات حماد کے چند دن پہلے اٹھائے گئے سوال کا جواب تھیں
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر--کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر
آخری رات بچھڑتے ہوئے اس نے ہمیشہ کی طرح وہی جملہ دہرایا جو وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا، ''اچھا جیا باجی سوہنے رب دے حوالے''۔ یہی آخری جملہ تھا جو اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا۔''اچھا حماد …میرے پیارے بھائی، میرے دوست۔ سوہنے رب دے حوالے۔ تم بھی اور میں بھی، آج بھی اور کل بھی، جب ہم دوبارہ ملیں گے اور اس کے بعد بھی ہمیشہ ہمیشہ۔۔ سوہنے رب دے حوالے--
اس کے ہونے سے تھیں سانسیں میری دگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے