ياد رفتگاں
ڈاکٹر جواد ظہیر۔۔ چند تاثرات
محمد دين جوہر
”اچھا وئی جوان دس تینوں کی مسئلہ اے؟“ ڈاکٹر صاحب نے ٹھیٹھ لاہوری لہجے میں پنجابی بولتے ہوئے پوچھا۔ میں نے عرض کیا کہ بیانِ حال کے لیے کتنا وقت عنایت ہے؟ فرمانے لگے کہ جب تک چاہے بولو۔ میں نے پھر گزارش کی کہ متعین وقت ارشاد فرمائیں۔ فرمانے لگے کہ آدھ گھنٹہ کافی ہو گا؟ میں نے عرض کیا مجھے صرف دو تین منٹ چاہیے ہوں گے کیونکہ میں وہ بات کہنا چاہتا ہوں جو کوئی ڈاکٹر سرے سے سنتا ہی نہیں۔ اس پر ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور میں نے اپنی بات شروع کر دی۔ اس دوران میں ان کی نظریں مجھ پر گڑی رہیں اور بمشکل ایک، ڈیرھ منٹ گزرا ہو گا کہ میری بات ختم ہو گئی۔ انہوں نے ایک فل سکیپ کاغذ اٹھایا اور لکھنے لگے اور ساتھ ساتھ پنجابی میں مجھے بتاتے رہے کہ میرا مسئلہ کیا ہے اور میں نے یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا وغیرہ۔ اس اثنا میں، میں بےچین سا ہو گیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے تو کچھ پوچھا ہی نہیں۔ فرمانے لگے کہ ضرورت نہیں، کیونکہ تمہارے بیانِ حال سے مجھے بیماری کا پتہ چل گیا ہے اور ایک پرچی اٹھا کر اس پر کچھ لکھا اور میری طرف بڑھا دی کہ یہ لو تمہاری بیماری کا نام۔ تھوڑی دیر میں وہ لمبا سا کاغذ بھی مجھے تھما دیا جس پر دوائیں، پرہیز اور ٹیسٹ وغیرہ درج تھے۔ فرمانے لگے کہ میں نے کوئی تشخیصی ٹیسٹ نہیں لکھا جو ہیں سب تصدیقی ہیں، اور کہا کہ ٹیسٹ کروا کے پندرہ دن بعد دوسری ملاقات کے لیے آ جانا۔
یہ سنہ ۲۰۰۴ء کی بات ہے جب مجھے anaphylaxis کا دورہ ہوا تھا اور میں گھنٹہ بھر کے لیے کوما میں چلا گیا تھا، اور ایڈرینالین کا ٹیکا لگنے سے ہوش آیا تھا۔ پہلی بار یہ دورہ مجھے سنہ ۱۹۸۶ء میں شہد کی مکھی کے ڈسنے سے ہوا تھا، اور دونوں مرتبہ بچ جانے کی وجہ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ میں اسے خداوندِ متعال کا خاص کرم ہی سمجھتا ہوں۔ لیکن اب کی بار بچ تو گیا لیکن میری صحت بالکل برباد ہو گئی اور تین ماہ میں سٹیرائد کے ٹیکوں سے میرا وزن چالیس کلو بڑھ گیا۔ ان دنوں میرے عزیز دوست نادر عقیل انصاری صاحب محکمہ صحت میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ جب میں اپنے شہر کے ڈاکٹروں کی گوناگوں تشخیصی آرا سے مایوس ہو گیا تو میں نے انہیں فون کیا کہ وہ مجھے ملک کے سب سے بڑے فزیشن سے چیک کرائیں۔ انہوں نے فوراً ہامی بھر لی اور کہا کہ لاہور آ جاؤ میں خود تمہیں لے کر جاؤں گا۔ ان کی رائے میں ڈاکٹر جواد ظہیر ملک کے اول درجے کے فزیشنوں میں سے تھے اور وہ مجھے انہیں کے پاس لے گئے۔ جب ہم میو ہسپتال پہنچے تو کوئی دس بارہ بڑے ڈاکٹر صاحبان بھی آ گئے اور وہاں ایک سٹاف روم میں بڑی دیر نادر صاحب سے گپ شپ کرتے رہے۔ اور اس کے بعد ڈاکٹر جواد ظہیر صاحب مجھے معائنے کے لیے اپنے کمرے میں لے گئے۔ ان کے ساتھ چار ڈاکٹر اور بھی تھے جو شاید ان کے شاگرد رہے ہوں گے۔
پہلی ہی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کی توجہ اور مریض کے لیے ان کی empathy بہت نمایاں تھی۔ انہیں کوئی جلدی نہ تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ کو ڈھیر سارے آٹو اِمیون (auto-immune) عوارض ہیں اور ان کی شفا تو کوئی نہیں لیکن ان کو بڑے اچھے طریقے سے manage کیا جا سکتا ہے۔ ان سے مل کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بہت مختلف قسم کے ڈاکٹر ہیں، اور انسانی صحت اور بیماری کے بارے میں ان کی insight بہت گہری ہے۔ ان کے ہاں مجھے طبی تشخیص اور علالتی تجربے میں کوئی تعارض نظر نہیں آیا۔ میرا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ میں کسی ایسے میڈیکل سائنسدان سے نہیں مل رہا جو مریض کو کسی clinical gaze میں سمونے کی کوشش کر رہا ہو۔ میں سنہ ۲۰۰۴ء سے سنہ ۲۰۱۸ء تک ان کے زیر علاج رہا اور وہ کسی نہ کسی طرح مجھے چلاتے رہے۔ اس سال مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ دواؤں، پرہیزوں اور دعاؤں کے باوجود آئندہ سال نکالنا ممکن نہیں ہو گا۔ گناہوں کا پشتارہ بڑا اور نیکیوں کا توشہ بہت مختصر تھا لیکن میں نے خود کو ذہنی طور پر اگلے سفر کے لیے تیار کر لیا تھا۔
اگست سنہ ۲۰۱۸ء میں جب میں ڈاکٹر جواد ظہیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے ”جوہر، تو فیر آ گیا ایں“۔ عرض کیا کہ میں نے کہاں جانا؟ میں تشخیصی اسٹول پر بیٹھا تو وہ انگشت شہادت ٹَھک ٹَھک اپنے سر پر مارتے ہوئے کہنے لگے کہ تیرے مسئلے کے حل کے لیے میں نے اپنا یہ دماغ سارا ہی لگا دیا تھا۔ اب تم پھر آ گئے ہو اور سر پر ویسے ہی انگلی مارتے ہوئے کہنے لگے کہ اس سے آگے میرا دماغ کام نہیں کرتا اور اگر میں نے اس پر زور دیا تو یہ میرے کام کا بھی نہیں رہے گا۔ میں نے پنجابی میں عرض کیا کہ ”ڈاکٹر صاحب تسی تے چٹا جواب ای دے دتا اے“ (آپ نے تو صاف جواب ہی دے دیا)۔ فرمانے لگے کہ ”چٹا ای سمجھ“ (یعنی صاف جواب ہی سمجھو)۔ ڈاکٹر صاحب کے جواب کا مطلب تھا کہ کہیں اور جانے کو کوئی جگہ نہ رہی تھی۔ میں نے ایک دوست سے ذکر کیا کہ اب آگے کیا ہو گا؟ تو اس نے انتظار حسین کے ناول سے ایک فقرہ دہرا دیا کہ اب ”آگے سمندر ہے“ اور میں بھی اس میں اترنے کے لیے خود کو تیار کرنے لگا۔ میری صحت کے جو حالات تھے اس میں ڈاکٹر صاحب جیسا دیانت دار فزیشن جواب ہی دے سکتا تھا، کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔
جتنا عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کے زیر علاج رہا، میں نے اپنے کئی دوستوں اور عزیزوں کو ڈاکٹر صاحب سے چیک کرایا، اور ہمیشہ نتائج حیرت انگیر ہی رہے۔ میں سنہ ۲۰۱۸ء کے بعد ۶/ جنوری سنہ ۲۰۲۴ء کو ایک عزیز کے چیک اپ کے لیے پھر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کا حافظہ غضب کا تھا۔ انہیں سنہ ۲۰۰۴ء کی میری ایک اہم ٹیسٹ رپورٹ پوری طرح یاد تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ کچھ حیران سے ہوئے لیکن کہنے لگے کہ تم نے اپنی بیماری کو بھی خوب manage کیا ہے۔ میرے طبی مسائل سے تو وہ واقف تھے اور انہوں نے کچھ نئی چیزیں بتائیں اور دوائیں لکھ دیں اور اپریل میں آنے کا کہہ دیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں بیچ میں ایک healer کے پاس چلا گیا تھا اور اس کے علاج سے مجھے بہت فائدہ ہوا ہے۔ زندگی کا دیا ٹمٹماتے ٹمٹماتے پھر سنبھل گیا اور میں سنہ ۲۰۱۹ء سے آگے نکل آیا جو میرا اندازہ تھا کہ آخری سنگ میل ہو گا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ہر طبیب کا ایک perspective ہوتا ہے اور علاج اس کے تابع ہوتا ہے اور پھر میرے عزیز کی طرف متوجہ ہو گئے۔ آج کل تشخیص بہت ہی میکانکی اور مشینی نوعیت کی ہو گئی ہے۔ سرجن تو بالعموم مستری ہی ہوتے ہیں جو مرمتی کام (repair work) کے ماہر ہوتے ہیں۔ فزیشنوں کے ہاں بھی فن تشخیص کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے اور ٹیسٹوں پر انحصار ہوتا ہے۔ تشخیص اور علاج بہت schematic سا ہو گیا ہے، اور اس میں عام تجربہ کار کمپاؤنڈر اور کسی بڑے ڈاکٹر/اسپیسلسٹ میں فرق بہت کم ہوتا ہے۔ اگر فرق ہوتا ہے تو پیسوں کا ہے۔ تشخیص اصلاً insight کا کوئی ایسا لمحہ ہوتا ہے جو epiphany کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ جس طرح صوفی شیخ کا کشفی لمحہ مرید میں اس کے نفسی تصرف کی بنیاد بنتا ہے بعینہٖ ڈاکٹر کا تشخیصی ”کشف“ اس کے طبعی تصرف کی بنیاد ہوتا ہے۔ آج کل کے ڈاکٹروں کی اکثریت سائنسدان ہے، اور طبی سائنس میں بھینس اور آدمی کے علاج کے اصول ایک ہیں۔
ہاں تو قصہ میرے عزیز کا چل رہا تھا۔ ڈاکٹر جواد ظہیر نے ان کو چھوا تک نہیں۔ انہیں غور سے دیکھا اور ان کی بیماری کے بارے میں بتانے لگے اور بیماری کی پوری تفصیل اس کے سامنے رکھ دی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے ڈاکٹر صاحب کو کشف ہو رہا ہو۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے کہ کرونا ہوا تھا؟ جواب آیا جی ہاں۔ ویکسین لگوائی تھی؟ جواب پھر ہاں میں تھا۔ ان کو vasculaitis کا مسئلہ تھا اور بینائی خطرے میں تھی۔ ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے کہ ویکسین سے آٹو امیون کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور فرمانے لگے کہ آج کل بھی کرونا کی بیماری بالکل ویسے ہی پھیل رہی ہے جیسے کہ وبا کے دنوں میں تھی۔ میں اپنے عزیز کو ڈاکٹر صاحب کے پاس اسی لیے لے کر آیا تھا کہ ان سے بہتر کوئی آٹو امیون کا علاج نہیں کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پرہیزیں تجویز کیں اور کچھ دوائیں اور ٹیسٹ لکھ دیے، اور کہا کہ تمہارا مسئلہ مکمل طور پر reversible ہے۔ فرمانے لگے کہ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے اور تمہیں اندازہ ہو گا کہ کبھی یہ مسئلہ تھا ہی نہیں۔ انہوں نے اپریل میں دوبارہ آنے کو کہا اور فرمایا کہ اگلے مرحلے میں تمہاری دوا فائنل ہو جائے گی۔ میرے عزیز کو ڈاکٹر صاحب کی دوا سے بہت فائدہ ہوا اور ان کے مسئلے میں بہت بہتری آئی تھی۔ ہم دوبارہ ملاقات کے لیے اپریل کا انتظار کر رہے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کو ایسا منظور نہ تھا اور وہ ۵/ مارچ کو اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔
ڈاکٹر صاحب سنہ ۲۰۱۷ء میں ریٹائر ہوئے اور ان کی عمر کوئی ۶۷، ۶۸ برس رہی ہو گی۔ ان کی زیادہ تر سروس میو ہسپتال میں گزری، اور انہوں نے ہمیشہ اپنی ہی شرائط پر ملازمت کی، اور اوقات کار بھی اپنی مرضی کے رکھے۔ مجھے ایک معتبر آدمی کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ وہ سنتے کسی کی نہیں تھے اور استعفیٰ ان کی جیب میں ہوتا تھا۔ وہ اپنے کلینک پر بہت کم مریض دیکھتے تھے، یہی کوئی آٹھ یا دس۔ کبھی کچھ زیادہ بھی ہو جاتے تھے لیکن معمول یہی تھا۔ آخری سالوں میں وہ نئے مریض نہیں دیکھتے تھے۔ میں نے اپنے عزیز کے لیے بہت مشکل سے وقت لیا تھا۔ طویل مدت تک وہ نصیر ہسپتال میں بیٹھا کیے لیکن شاید سنہ ۲۰۱۸ء میں انہوں نے سوئی گیس کالونی میں اپنا کلینک بنا لیا تھا۔ ہفتے میں ایک آدھ دن ڈاکٹر صاحب اسکیم موڑ پر بھی مریضوں کو بغیر فیس کے چیک کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ وہ نماز جمعہ کے بعد ڈسپینسری کے دروازے بند کر دیتے ہیں، اور اس وقت تک جتنے مریض اندر آ چکے ہوتے ہیں ان کو چیک کرتے کرتے آدھی رات گزر جاتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب غیرمعمولی پیشہ ورانہ commitment کے حامل تھے، اور ساری عمر انہوں نے جس طرح فن طبابت کو نبھایا اس سے ان کو علاج میں ایک ایسا ملکہ حاصل ہو گیا تھا جو بہت کم یاب ہے۔ ان کی عظمت انسانی کا درست اندازہ اس وقت ہوتا تھا جب وہ مریض سے تعامل کرتے تھے۔ میں بہت لوگوں کو ان کی خدمت میں لے کر گیا۔ وہ جس empathy سے مریضوں کو دیکھتے وہ میرے لیے ہمیشہ حیرت کا باعث رہی۔ اکثر ان کی میز پر طب کی کوئی نہ کوئی کتاب کھلی ہوتی تھی۔ وہ بعض اوقات ایسی دوائیں تجویز کرتے تھے جن کا حصول بمشکل ہوتا تھا۔ وہ بعض اوقات دیسی چیزیں بھی تجویز کر دیتے تھے اور غذا کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب حقیقی معنوں میں مذہبی آدمی تھے۔ مجھے زیادہ تفصیلات تو معلوم نہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ لاہور کی ایک بڑی مسجد کی مکمل ذمہ داری ان کے خاندان پر تھی اور انہوں نے ہمیشہ بکمال اس کو پورا کیا۔ ان کے انتقال سے پاکستان ایک انسان دوست اور عظیم ڈاکٹر سے محروم ہو گیا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سایۂ رحمت میں ویسے ہی سمیٹ لے جس طرح وہ دنیا میں اپنے مریضوں کے باعثِ رحمت تھے۔
اور اللہ کی قدرت کہ اتنا بڑا طبیب کیسے پل بھر میں چلا گیا۔ کام سے گھر گئے، بیگم سے کہا بے چینی سی ہے ذرا -ای سی جی کروا کر آتا ہوں، گاڑی میں بیٹھے اور انا للہ و انا الیہ راجعون