دل میں ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سوگئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا میسر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
٭٭٭
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمان وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب و ہ رخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہء گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
٭٭٭