تم نے دیکھا نہیں
دن جو نکلا تو خیمے اکھڑنے لگے
شب کے جانے کی تیاری ہونے لگی
رات سامان اٹھا کر نئی منزلوں کی طرف بڑھ گئی
کوئی کوچہ نہیں
کوئی آنگن نہیں
جس میں شب کے سپاہی نظر آتے ہوں
سب کے سب جا چکے
تم نے دیکھا نہیں
مسکراہٹ نے رنجش کو گم کر دیا
دکھ فضاؤں میں تحلیل ہونے لگے
نفرتیں مٹ گئیں
تلخیاں کھو گئیں
غم اداسی کا بازو پکڑ کے کہیں دور جنگل کی جانب روانہ ہوا
تم نے دیکھا نہیں
ایک معصوم سچ نے
سبھی جھوٹ کی اونچی دیواروں کو منہدم کر دیا
قصر مٹی کے ڈھیروں کی مانند سڑکوں کے دونوں طرف
ایسے خاموش بیٹھے ہیں جیسے کبھی
شان و شوکت نے ان کو چھوا ہی نہ ہو
سچ نے مسند سنبھالی تو
شہروں کے موسم بدلنے لگے
جھوٹ کاسہ لیے در بدر ہو گیا
تم نے دیکھا نہیں
دوستی نے گھروں کے دریچوں کو وا کر دیا
روشنی آگئی
خوشبوئیں سارے کمروں کے اندر بکھرنے لگیں
دشمنی پچھلے در سے کہیں ایسے رخصت ہوئی
جیسے اب لوٹنا اسکا ممکن نہ ہو
تم نے دیکھا نہیں
حق جوآیا تو باطل نے رستہ دیا
اس طرح اسکو بھی حق سے محبت ہو یا
ہار جانے کا اتنا یقیں ہو کہ لڑنا فقط
جان دینے کا مصداق ہو
تم نے دیکھا نہیں