تم نے دیکھا نہیں

مصنف : اطہر عظیم خان حضرت

سلسلہ : غزل

شمارہ : دسمبر 2004

 

تم نے دیکھا نہیں
دن جو نکلا تو خیمے اکھڑنے لگے
شب کے جانے کی تیاری ہونے لگی
رات سامان اٹھا کر نئی منزلوں کی طرف بڑھ گئی 
کوئی کوچہ نہیں
کوئی آنگن نہیں
جس میں شب کے سپاہی نظر آتے ہوں
سب کے سب جا چکے
تم نے دیکھا نہیں
مسکراہٹ نے رنجش کو گم کر دیا 
دکھ فضاؤں میں تحلیل ہونے لگے
نفرتیں مٹ گئیں
تلخیاں کھو گئیں
غم اداسی کا بازو پکڑ کے کہیں دور جنگل کی جانب روانہ ہوا
تم نے دیکھا نہیں
ایک معصوم سچ نے 
سبھی جھوٹ کی اونچی دیواروں کو منہدم کر دیا
قصر مٹی کے ڈھیروں کی مانند سڑکوں کے دونوں طرف
ایسے خاموش بیٹھے ہیں جیسے کبھی 
شان و شوکت نے ان کو چھوا ہی نہ ہو
سچ نے مسند سنبھالی تو
شہروں کے موسم بدلنے لگے
جھوٹ کاسہ لیے در بدر ہو گیا 
تم نے دیکھا نہیں
دوستی نے گھروں کے دریچوں کو وا کر دیا
روشنی آگئی
خوشبوئیں سارے کمروں کے اندر بکھرنے لگیں
دشمنی پچھلے در سے کہیں ایسے رخصت ہوئی 
جیسے اب لوٹنا اسکا ممکن نہ ہو
تم نے دیکھا نہیں
حق جوآیا تو باطل نے رستہ دیا
اس طرح اسکو بھی حق سے محبت ہو یا
ہار جانے کا اتنا یقیں ہو کہ لڑنا فقط
جان دینے کا مصداق ہو
تم نے دیکھا نہیں