اپریل 2009
موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں نوجواں ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نظر آتی ہے ماں اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن چاہتوں کا ...
جون 2009
اَحوالِ واقعی کی وضاحت نہ کر سکے اپنے ہی دوستوں کی شکایت نہ کر سکے تبدیل ہو نہ جائے مُرادِ سخن وَراں اس ڈر سے کوئی بات روایت نہ کر سکے دیکھا ہے سرفرازؔ و سلیمؔ و امینؔؒ کو بَشّارِؔ دل رُبا کی زیارت نہ کر سکے ا...
اگست 2009
سر بزم اپنی عداوتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں وہ دبی دبی سی شکایتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں وہ ٹکے ٹکے پہ لڑائیاں ، وہ مزے مزے کی دہائیاں وہی بچپنے کی شرارتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں مرے انتظار میں ر ات بھر کھا...
اے موجِ کرم مجھ کو پھر سوئے حرم لے چل درد و غمِ فرقت سے آنکھیں ہوئیں نم، لے چل مشتاقِ حضوری کو شایانِ حضوری کر ایک عاجز و خاطی پر ہو جائے کرم، لے چل ہر لحظہ برستی ہے رحمت کی گھٹاجس پر بہتا ہے جہاں ہر دم دریائے نعیم، ل...
دسمبر 2009
سوچاں میں سوچوں اور کچھ لکھوں یہ اکثر سوچتی ہوں میں اِسی سوچ میں الفاظ کی تلاش میں کسی مدد کی آس میں نہ جانے کب سے میں خاموش سوچتی ہوں اور پھر لوٹتی ہوں کہ سوچوں اور کچھ لکھوں ٭٭٭ مجبوریاں حالات نے مینوں م...
جنوری 2008
تمہیں سے اے مجاہدو جہان کا ثبات ہے تمہاری مشعل وفا فروغ شش جہات ہے تمہاری ضو سے پرضیا جبین کائنات ہے کواکب بقا ہو تم جہاں اندھیری رات ہے شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے یہ نکتہ بینظیر ہے معارف و نکات میں کہ فرق ہ...
آنی جانی چیز ہیں خوشیاں چلتی پھرتی چھانو ہے ارماں منگنی بیاہ برات اور رخصت میل ملاپ سہاگ اور سنگت ہیں دو دن کے سب بہلاوے آگے چل کر ہیں پچھتاوے ریت کی ایک دیوار تھی دنیا اوچھے کا سا پیار تھی دنیا ہار...
فروری 2008
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے اگتے ہیں تہ سایہ گل خار غضب کے یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے جمہور سے سلطانی ...
اور نہ در بہ در پھرا، اور نہ آزما مجھے بس میرے پردہ دار بس ،اب نہیں حوصلہ مجھے صبر کرو محاسبو ، وقت تمہیں بتائے گا دہر کو میں نے کیا دیا،دہر سے کیا ملا مجھے ذات و حیات و کائنات،بے سرو پا و بے ثبات بے سروپا وبے ثبات شے...
مارچ 2008
سنا ہے سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھرجائے تو وہ حملہ نہیں کرتا سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں ہوا...
تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر ان میں اک رمز ہے جس رمز ک...
یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے بجھتا ہے دم صبح تو جلتا ہے سر شام اک درد سا پہلو میں مچلتا ہے سرشام آکاش پہ جب چاند نکلتا ہے سر شام کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر ایسے ہی مرا حال سنبھلتا ہے سرشام چھٹ جات...