موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں
فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بھی بوڑھی نظر آتی ہے ماں
اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن
چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا
بچہ تو چھاتی پہ ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں
اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح
اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر
ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آ جاتی ہے ماں
کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم
ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ ایک فاتحہ پاتی ہے ماں