سر بزم اپنی عداوتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
وہ دبی دبی سی شکایتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
وہ ٹکے ٹکے پہ لڑائیاں ، وہ مزے مزے کی دہائیاں
وہی بچپنے کی شرارتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
مرے انتظار میں ر ات بھر کھانا پینا حرام تھا
مجھے یاد ہیں وہ محبتیں، تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
شب ابر گھس کے لحاف میں جنہیں سن سنا کے گزارتے
وہ پہیلیاں وہ حکایتیں تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
مری لوح چشم پہ نقش ہیں وہ گئے دنوں کی کہانیاں
وہ اطاعتیں، وہ حکومتیں، تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
کبھی تتلیوں ، کبھی جگنوؤں کبھی ماہ و مہر و نجوم کی
وہ قسم اٹھانے کی عادتیں، تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں
مجھے ازہر آج بھی یاد ہیں جوغموں کے جم غفیر میں
وہ کسی کے پیار کی شدتیں، تمہیں یاد ہوں کہ نہ یاد ہوں