شہید کی جو موت ہے

مصنف : مولانا عبدالمجید سالک

سلسلہ : نظم

شمارہ : جنوری 2008

 

تمہیں سے اے مجاہدو جہان کا ثبات ہے 
تمہاری مشعل وفا فروغ شش جہات ہے 
تمہاری ضو سے پرضیا جبین کائنات ہے 
کواکب بقا ہو تم جہاں اندھیری رات ہے 
شہید کی جو موت ہے ، وہ قوم کی حیات ہے 
یہ نکتہ بینظیر ہے معارف و نکات میں 
کہ فرق ہے تمہاری اور عوام کی ممات میں 
تمہارا امتیاز ہے دوام میں ثبات میں 
جدا ہو کائنات سے تو محو اس کی ذات میں 
بقا ہے جس کی ذات کو وہ اک خدا کی ذات ہے 
مجاہدوں کے بازؤے فلک فگن عجیب ہیں 
بہادروں کے پنجہ ہائے تیغ زن عجیب ہیں 
یہ جسم ہائے خونچکان و بے کفن عجیب ہیں 
مجاہد و شہید کے یہ بانکپن عجیب ہیں 
حیات بھی حیات ہے ، تو موت بھی حیات ہے 
زکوۃ دے اگر کوئی ، زیادہ ہو تونگری 
بکھیر دے اناج اگر تو فصل ہو ہری بھری 
چھٹیں جو چند ڈالیاں نمو ہو مخل تاک کی 
کٹیں جو چند گردنیں تو قوم میں ہو زندگی 
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے 
بلائیں جن کی قوم لے تمہیں وہ شہسوار ہو 
تمہیں وہ سرفروش ہو تمہیں وہ جانسپار ہو 
تمہیں دفاع و احترام دیں کہ ذمہ دار ہو 
جو تم نہ ہو تو امن کی بنا نہ استوار ہو 
تمہاری تیغ ضامن نظام کائنات ہے 
٭٭٭
برعظیم پاکستان و ہند کے معروف صحافی ، ادیب ، مزاح نگار ، شاعر ، دانشور اور روزنامہ ‘‘زمیندار’’ اور پھر روزنامہ‘‘انقلاب’’ کے ایڈیٹر مولانا عبدالمجید سالک (1894-1959) کی یہ شہر آفاق نظم تحریک آزادی کے تمام ادوار میں مسلمانوں میں زبان زد عام تھی اور بعد میں بھی جب کبھی پاکستانی افواج کو آزمائش کے مراحل کا سامنا کرنا پڑا تو یہ نظم عوام کے لبوں پر رہی ۔ پاکستانی فضائیہ نے مولانا عبدالمجید سالک کی اس نظم کو اپنا قومی ترانہ قرار دیا اور فضائیہ کے اڈوں پر اسی نظام کا شہرہ ہے ۔ 
    واضح رہے کہ پاک فضائیہ کے حکام نے مولانا سالک کی نظم کوا پنا ترانہ اپنانے سے قبل ان کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید مرحوم(1919-1995) سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کر لیا تھا۔ جس کے لے کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں لیا گیا کیونکہ نظم نگار کے خاندان کے لیے یہی بڑا اعزاز ہے کہ ان کے بزرگ کی نظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلح افواج کے ایک اہم شعبے کے جوان ہمیشہ پڑھ کر جذبہ شہادت سے سرشار ہوتے رہیں گے ۔ 
( نذر الاسلام ابن ڈاکٹر عبدالسلام خورشید مرحوم )