اے موجِ کرم مجھ کو پھر سوئے حرم لے چل
درد و غمِ فرقت سے آنکھیں ہوئیں نم، لے چل
مشتاقِ حضوری کو شایانِ حضوری کر
ایک عاجز و خاطی پر ہو جائے کرم، لے چل
ہر لحظہ برستی ہے رحمت کی گھٹاجس پر
بہتا ہے جہاں ہر دم دریائے نعیم، لے چل
اُس خاک کے ذروں کو آنکھوں سے لگانا ہے
جس خاک نے چومے ہیں وہ پاک قدم، لے چل
اشکوں کے ستارے ہیں، آہوں کے شرارے ہیں
ساماں رہ الفت کا کیا کچھ ہے بہم، لے چل
اک موجِ غم و حرماں جاری ہے رگ و پے میں
درماندۂ منزل ہے یہ خستہ قدم، لے چل
قصہ غم حسرت کا ، دکھڑا غم ملت کا
کہنا ہے مجھے اُنؐ سے بادیدۂ نم، لے چل
آفات نے تاکا ہے، آلام نے گھیرا ہے
جاں تنگ ہے سینے میں گھٹنے لگا ہے دم، لے چل
اشکوں کی زبانی سب کہہ ڈالوں گا حال غم
ہونٹوں پہ مچلتی ہے رودادِ امم، لے چل
لینا ہے پھر اُس در سے یہ درس عزیمت کا
کس طرح مٹانی ہے بنیادِ ستم، لے چل
رحمت جو بھرم میرا رکھ لے تو عجب کیا ہے
سر بارِ ندامت سے مدت سے ہے خم، لے چل
حفیظ الرحمن احسن
مرسلہ: رانامحمد ارشد وڈیالوی