اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

مصنف : امیر الاسلام ہاشمی

سلسلہ : نظم

شمارہ : فروری 2008

 

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے اگتے ہیں تہ سایہ گل خار غضب کے 
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
 
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا مر مر کے جئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے 
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
 
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر شمشیروسناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے تقدیر امم سو گئی طاؤس پہ آ کر
اقبا ل تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
 
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان 
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
 
کردارکا گفتار کا اعمال کا مومن قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
 
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
 
ہر داڑھی میں تنکاہے ہر آنکھ میں شہتیر مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں