مارچ 2013
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں ملتا ہے کہاں خوشہء گندم کہ جلاؤں شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں مکاری و عیار...
فروری 2008
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے اگتے ہیں تہ سایہ گل خار غضب کے یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے جمہور سے سلطانی ...