مئی 2011
میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غْنچہ ہو کہ گْل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر وہی خِ...
قسمت میں ہے افتادگی، شکوہ کسی کا کیا کروں کیوں میں کسی کا نام لوں، کیوں ہوں کسی سے بدگماں دلدادہ اْلفت ہوں میں، راضی ہوں میں ہر حال میں اْس کی رضا سے شاد ہوں، اْس کی خوشی سے شادماں دو دن کا ہے یہ رنج و غم، دو دن کی ہے یہ...
تو نے جس وقت یہ انساں بنایا یارب اس گھڑی مجھ کو تو اک آنکھ نہ بھایا یارب اس لیے میں نے اپنا سر نہ جھکایا یارب لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یارب عقلمندی اسی میں ہے کہ میں توبہ کر لوں! سوچتا ہوں اب اس انساں کو ...
جون 2011
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی آتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے اس کی وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
لوگ یوں بھی اعتراف جرم کرتے رہے آئینوں کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے رات کی قسمت ضمیر اس کا منور ہو نہ ہو فرض اپنا چاند تارے تو بجا لاتے رہے اُن کی جانیں دستکش ان کی حمایت سے ہوئیں رہروانِ شوق پر ایسے بھی وقت آتے ر...
جولائی 2011
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ ...
٭موٹی بیوی کمزور شوہر سے اے میاں کہیں لے چلو کوئی سیر ہو کوئی لطف ہو کچھ بدن میرا چست ہو کچھ جان میں جان آئے کچھ کھائیں چل کے شام کو چلو چھوڑو اب سب کام کو ٭کمزور شوہر کا جواب تجھے منڈی لے کے جاؤں گا ت...
٭ ہم لوگ نہ تھے ایسے ٭ ہیں جیسے نظر آتے ٭ اے وقت گواہی دے ٭ ہم لوگ نہ تھے ایسے ٭ یہ شہر نہ تھا ایسا ٭ یہ روگ نہ تھے ایسے ٭ دیوار نہ تھے رستے ٭ زندان نہ تھی بستی ٭ آزار نہ تھے رشتے ٭ خلجان نہ تھی ہستی ٭ ...
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ ہجر کا موسم لوٹ آتا ہے خزاں رتوں کی ویرانی در آتی ہے اور سانسوں میں اضطراب بھر جاتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ جب ملن کے لمحات ابدی لگنے لگتے ہیں جب دل میں پھول کھلنے لگتے ہیں جب رفاقتوں سے شامیں مہ...
اگست 2011
کبھی وہ دن بھی ہوتے تھے سکوں سے ہم بھی سوتے تھے بہاریں مسکراتی تھیں وفا کے گیت گاتی تھیں وہ چشمے گنگناتے تھے پپیہے چہچہاتے تھے یہ خطہ تھا حسیں ایسا کسی ایک نازنین جیسا نگاہیں دیکھتی رہتیں مگر کچھ سوچتی رہتی...
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم دیدہ دل کی بے انت شاہی میں ہم زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم اپنے خوابوں ، خیالوں کی جاگیر کو فکر کے موقلم سے تراشی ہوئی اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو ، اپنی تقدیر کو یوں سنبھا...
بیٹی: ٭ مجھے اتنا پیار نہ دو بابا ٭ کل جانا مجھے نصیب نہ ہو ٭ یہ جو ماتھا چوما کرتے ہو ٭ کل اس پر شکن عجیب نہ ہو ٭ میں جب بھی روتی ہوں بابا ٭ تم آنسو پونچھا کرتے ہو ٭ مجھے اتنی دور چھوڑ نہ آنا ٭ میں روؤں اور تم ق...