نظم


مضامین

آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتاب دیکھ صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثر کے باب میں اِک نظر تو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ دوش پر ترکش پڑا رہنے دے، پہلے دل سنبھال دل سنبھل جائے تو سوئے سینہ احباب دیکھ ...


سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے   شکوہ ظلمتِ شب سے، تو کہیں بہتر تھا اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے   کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے   جشنِ مقتل ہی ن...


رنج و غم مانگے ہے، اندوہ و بلا مانگے ہے دل وہ مجرم ہے کہ خود اپنی سزا مانگے ہے   چپ ہے ہر زخمِ گلو، چپ ہے شہیدوں کا لہو دستِ قاتل ہے جو محنت کا صِلہ مانگے ہے   تو بھی اک دولتِ نایاب ہے، پر کیا کہیے زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے  ...


دوسالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں پچھلے سال بھی ایسی ہی اک سرد دسمبر کی شب تھی جب دو سالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا تھا سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی ماہ وسال کے پنکھ لگا کر اپنی ایک مخصوص ڈگر پراڑتا ہے دو سالوں کے سنگ...


میں تہی نوا میں تہی ثنا میں لکھوں گا کیا؟ مگر اے خدا مری پوٹلی میں  جو تیرے دھیان کی جوت ہے یہی رت جگا مرا مال ہے یہی مال مرا کمال ہے ٭٭٭ ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئ...


دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک تلخ وتاریک ہے زندگی یا نبی   اے نوید مسیحا تیری قوم کا حال موسیٰ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا اسکے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یانبی   کام ہم ن...


ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم   میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم   اے درد بتا کچھ تو ہی پتہ اب تک یہ م...


  اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں   ملتا ہے کہاں خوشہء گندم کہ جلاؤں شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا   کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں اقبال! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں   مکاری و عیار...


  اے میرے پیارے بندو ’ اے جنت کے سوداگرو  دنیا کے خساروں ’ کی بات نہ کرو   تم نے ثریا کی بلندی پہ ڈالی ہے کمند  تم زمیں کے ستاروں کی بات نہ کرو   تم تو جنت کے موسموں کے ہو خوگر  ان آتی جاتی بہاروں کی بات نہ کرو    فرد...


  جنت سے کہیں بڑھ کے حسیں ان کا نگر ہے پھر پیشِ نظر میرے مدینے کا سفر ہے   ہر سمت نظر آتا ہے یاں طور کا جلوہ ہر زلفِ شبِ تار بھی رخسارِ قمر ہے   بیٹھا ہوں میں روضے کے قریں تھام کے جالی رحمت کی گھٹا چھائی ہے اب وقت سحر ہے ...


  شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں  مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا   میں آخری جنگ لڑ رہا ہوں  مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا   ہوائیں پیغام دے گئی ہیں کہ مجھ کو دریا بلا رہا ہے   میں بات ساری سمجھ گیا ہوں  مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا   ...


  میں جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا   مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا   شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا   اس نے اکثر چان...