اگست 2012
کھڑی ہے سر پہ فوج فیل یارو ہے لازم بارش سجیل یارو سبھی فرعون اس میں ڈوب جاتے اگر یہ سندھ ہوتا نیل یارو کہ شاید پتلیاں خود جاگ اٹھیں مداری دے رہا ہے ڈھیل یارو میں رستے کے سبھی پتھروں کو سمجھتا آیا سنگ میل ی...
ستمبر 2012
لفظ و معنی کے درمیان میں ہوں پھر بھی صدیوں سے داستان میں ہوں میرا سایہ زمیں پر رینگتا ہے روز اول سے میں اڑان میں ہوں میں نے رہنا ہے اک بشر اور میں دو فرشتوں کے درمیان میں ہوں میری ہستی میرے فریب میں ہے او...
اکتوبر 2012
کبھی جو چھڑ گئی یاد رفتگاں محسن بکھر گئی ہیں نگاہیں کہاں کہاں محسن ہوا نے راکھ اڑائی تو دل کو یاد آیا کہ جل بجھیں مرے خوابوں کی بستیاں محسن کچھ ایسے گھر بھی ملے جن میں گھونگٹوں عوض ہوئی ہیں دفن دوپٹوں میں لڑکیاں محسن ...
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں دور تک کوئی ستارہ ہے نہ جگنو کوئی مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں میرے...
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے تری بانکی چتون نے چْن چْن کے مارے نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے نہ گْل ہیں نہ غْنچے نہ بْوٹے نہ پتّے ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے یہاں درد سے ہاتھ سینے پ...
نومبر 2012
دوشِ نبی کے شاہ سواروں کی بات کر کون ومکان کے راج دلاروں کی بات کر جن کے نفس نفس میں تھے قرآن کھلے ہوئے ان کربلا کے سینہ فگاروں کی بات کر ٭٭٭ لایا جو خون رنگ دگر کربلا کے بعد اونچا ہوا حسین کا سر کربلا کے بعد ٹو...
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول تڑپی ہے تجھ پہ لاش جگر گوشہ بتول اسلام کے لہو سے تری پیاس بجھ گئی سیراب کر گیا تجھے خونِ رگِ رسول کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی آزادی حیات کا یہ سرمدی اصول چڑھ جائے کٹ کے سر...
دسمبر 2012
دوسالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا ہوں پچھلے سال بھی ایسی ہی اک سرد دسمبر کی شب تھی جب دو سالوں کے سنگم پر میں جانے کیا کیا سوچ رہا تھا سوچ رہا تھا وقت کا پنچھی ماہ وسال کے پنکھ لگا کر اپنی ایک مخصوص ڈگر پر اڑتا ہے دو سالوں کے س...
جنوری 2011
گھر سے چلے تو راہ میں کوئی شجر نہ ہو دشوار اس قدر بھی کسی کا سفر نہ ہو جائیں گے کس کے در پر تیرے بعد اے چراغ تیرے وجود سے بھی اجالا اگر نہ ہو احسان بھی کرو تو بڑی خوش دلی کے ساتھ خیرات بھی جو دو تو کسی کو خبر نہ ہو ...
فروری 2011
ابھی سوتے رہو بھائی ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟ ابھی بے روزگاری نے تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے تمہارے بچے کی بوتل میں اب تک دودھ باقی ہے تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے ابھی سوتے رہو بھا...
مارچ 2011
خواب ذرا سا رہ جاتا ہے ہاتھ میں کاسہ رہ جاتا ہے آ کے موج گزر جاتی ہے ساحل پیاسا رہ جاتا ہے جب رسوائی ہو جاتی ہے کون شناسا رہ جاتا ہے ہجر کا درد دلوں میں اکثر اچھا خاصا رہ جاتا ہے چھن جاتی ہے د...
اپریل 2011
نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی عجب طرح رخ آیندگی کا رنگ اڑا دیار ذات میں ازخود گزشتگی ہی رہی حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو حریم شوق میں بس کمی ہی رہی پس نگاہ ...