کھڑی ہے سر پہ فوج فیل یارو
ہے لازم بارش سجیل یارو
سبھی فرعون اس میں ڈوب جاتے
اگر یہ سندھ ہوتا نیل یارو
کہ شاید پتلیاں خود جاگ اٹھیں
مداری دے رہا ہے ڈھیل یارو
میں رستے کے سبھی پتھروں کو
سمجھتا آیا سنگ میل یارو
یہ ہر سو شور ہے جو بے حسی کا
یہی ہے صور اسرافیل یارو
یہ جو کچھ مستقل سا لگ رہا ہے
یہ سب کچھ ہو جائے گا تبدیل یارو
بشر فطرت مجھے فرہاد سمجھی
فرشتوں میں رہوں جبریل یارو