ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چْن چْن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گْل ہیں نہ غْنچے نہ بْوٹے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں اْن کو گْزرے گْماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بْڑھیا یہ دْنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ، ذرا آنکھ اْٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لْوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیر اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پَھلیں پْھولیں گے نْکتہ داں کیسے کیسے