نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
عجب طرح رخ آیندگی کا رنگ اڑا
دیار ذات میں ازخود گزشتگی ہی رہی
حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو
حریم شوق میں بس کمی ہی رہی
پس نگاہ تغافل تھی اک نگاہ کہ تھی
جو دل کے چہرہ ء حسرت کی تازگی ہی رہی
عجیب آئینہ پرتو تمنا تھا
تھی اس میں ایک اداسی جو سجی ہی رہی
بدل گیا سبھی کچھ اس دیار بودش میں
گلی تھی جو تری جاں وہ تری گلی ہی رہی
تمام دل کے محلے اجڑ چکے تھے----- مگر
بہت دنوں تو ہنسی ہی رہی خوشی ہی رہی
وہ داستاں تمہیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں
جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانہ ء خیال ملال
تری کمی ہی رہی اور مری کمی ہی رہی