اگست 2011
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ ...
رات آئی ہے دروازے پر آبیٹھی اک ماں اپنے لال کی آس میں جانے بیٹا کب گھر آئے راتیں یونہیں ڈھل جاتی ہیں بوڑھی آنکھیں جل جاتی ہیں بھید نہیں کھلتا ہے ، آخر بیٹے دیر سے کیوں آتے ہیں مائیں جاگتی کیوں رہتی ہیں ...
ستمبر 2011
میں جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا اس نے اک...
اکتوبر 2011
دعاؤں کے صحیفے پڑھ رہا ہوں عبادت کے طریقے پڑھ رہا ہوں مجھے یاد آرہی ہے اپنی ماں کی میں ممتا کے وظیفے پڑھ رہا ہوں ٭٭٭ ماں بیٹھ کے تکتی تھی جہاں سے مرا رستہ مٹی کو ہٹاتے ہی خزانے نکل آئے مقدس مسکراہٹ ماں کے ہ...
میرے اچھے سچے بابا میرے پیارے پیارے بابا سچ بتلاؤ وہ جو تمہارے کمرے کی اس کونے والی کھٹیا پر ہانپتی، کانپتی روتی ، دھوتی، آہیں بھرتی بیٹے بہو سے خفا خفا سی دودھ دوا کی خاطر لڑتی پھٹے پرانے، میلے کچیلے کپڑے پہنے...
ماں تیری یاد کو لفظ بناتی ہوں تو وہ تیرے لہجے کی خوشبو کو ترستے ہیں جیسے کوری مٹی کے کھنکھناتے برتن پر پانی کے چند قطرے گریں تو محض کھن کی آوازآتی ہے کوئی لہجہ آتا ہے نہ کوئی لمس اورشب و روزکی محنت سے جوڑے یادوں کے وہ ...
او دیس سے آنے والا بتا کس حال میں ہیں یاران وطن؟ آوارۂ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن وہ باغ وطن ، فردوس وطن ، وہ سرو وطن ، ریحان وطن او دیس سے آنے والے بتا! کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں ...
نومبر 2011
تاریخ نے پوچھا اے لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے شاہی نے کہا یہ میری ہے اور دنیا نے یہ مان لیا پھر تخت بچھے ایوان سجے گھڑیال بجے دربار لگے تلوار چلی اور خون بہے انسان لڑے انسان مرے دنیا نے آخر شاہی کو پہچان لیا پہچان لیا ...
اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائیں کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں تو بھی ہیرے سے بن گیا تھا پتھر ہم بھی جانے کیا ہو جائیں تو کہ یکتا بے شمار ہوا ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہوجائیں ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں پھر کہیں اور مبتلا ہو...
ماں کی قسمت جدائی زیادہ دن نہیں گزرے کہ میری گود کی گرمی تجھے آرام دیتی تھی گلے میں میری بانہیں ڈال کر تو اسطرح سوتا تھا کہ اکثر ساری رات میری اک کروٹ میں گزر جاتی میرے دامن کو پکڑے گھر میں تتلی کی طرح گھومتا پھ...
سخن طراز عوام الناس کس و ناکس سب ایک ہی صف نہ ہے تو ہے کورِ باطن جس پہ سب کچھ بے اثر ٭٭٭ نہ کر پچھتاوا عذرِ تمادیِ ایّا م کا کر کے عذم بالجزم رِہ گامزن اپنی منزل کی طرف ٭٭٭ عقل کل کے سحاب میں غیب داں جو بنتے ہیں نہیں بھرتے...
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اڑنے چگنے میں دن گزارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو کوئی پاس ہی سے بولا ...