ماں

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : نظم

شمارہ : اکتوبر 2011

 

دعاؤں کے صحیفے پڑھ رہا ہوں 
عبادت کے طریقے پڑھ رہا ہوں
 
 مجھے یاد آرہی ہے اپنی ماں کی 
میں ممتا کے وظیفے پڑھ رہا ہوں
٭٭٭
ماں بیٹھ کے تکتی تھی جہاں سے مرا رستہ
 مٹی کو ہٹاتے ہی خزانے نکل آئے
 
 مقدس مسکراہٹ ماں کے ہونٹوں پر لرزتی ہے
 کسی بچے کا جب پہلا سپارہ ختم ہوتا ہے
 
 میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
 مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
 
 منورماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
 جہاں بنیاد ہوتی ہے اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی
٭٭٭