او دیس سے آنے والا بتا کس حال میں ہیں یاران وطن؟
آوارۂ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغ وطن ، فردوس وطن ، وہ سرو وطن ، ریحان وطن
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والا بتا !
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں برکھا کی بہاریں آتی ہیں ؟
معصوم گھروں سے بھور بھئی چکی کی صدائیں آتی ہیں ؟
اور یاد میں اپنے میکے کی بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
ان ھدن کے اجڑے مندر پر مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاؤنی کی ویرانی و رقت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!
شاداب شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گلزار اب ، کہ نہیں ؟
بازار میں مالن لاتی ہے پھولوں کے گندھے ہار اب ، کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں ، نو عمر خریدار ، اب ، کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں ، گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں ؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں ، برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں ؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں ،موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں ، جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں ، چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا پہلے سی ہے معصوم ابھی ، وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں
جس میں وہ مثال خواب فضا؟
وہ کھیل ، وہ مسن ، وہ میداں ، وہ خواب گہ مہتاب فضا ؟
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی ، آہ ! بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا ، للہ بتا للہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی فجر دم چرواہے ، ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں ؟
اور شام کو دھندلے سایوں کے ہمراہ گھر کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی ہانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!
کیا اب بھی ہمارے گاؤں میں
گھنگھرو ہیں ہوا کے پاؤں میں ؟
کیا آگ لگی ہے چھاؤں میں ، موسم کا اشارہ کیسا ہے ؟
اے دیس سے آنے والے بتا، وہ دیس ہمارا کیسا ہے؟