ماں تیری یاد کو لفظ بناتی ہوں

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : نظم

شمارہ : اکتوبر 2011

 

ماں تیری یاد کو لفظ بناتی ہوں
 تو وہ تیرے لہجے کی خوشبو کو ترستے ہیں
 جیسے کوری مٹی کے کھنکھناتے برتن پر
 پانی کے چند قطرے گریں
 تو محض کھن کی آوازآتی ہے
 کوئی لہجہ آتا ہے نہ کوئی لمس
 اورشب و روزکی محنت سے جوڑے یادوں کے وہ چند لفظ
 حقیقت کی ایک ہی ٹھوکر سے تڑخ جاتے ہیں کہ
 تو نہیں ہے
 اور جو ہستی کی تکان سے بوجھل آنکھیں
 تیری یادوں کے خواب بْننا چاہیں
 توخاموش دھندلے سے خاکے
 تیری شبیہ کے رنگوں کو ترستے ہیں
 آنکھوں کی تھکن بڑھتی ہے خوابوں کی اْلجھن بڑھتی ہے
 بے صدا الفاظ بے شبیہہ تصویریں
 دْکھوں کی چْبھن بڑھاتی ہیں زیست کی تکان کو بڑھاتی ہیں
 کوئی کندھا نہیں کوئی آغوش نہیں
 کوئی دلاسا نہیں اور تیری طرف جاتا کوئی رستہ نہیں
 بس مٹی کا گھروندہ ہے جو تیرا نشان بناتا ہے
 مجھ کو پاس بْلاتا ہے
 بے حْکم کیسے جاؤں اپنے درد کیسے بتاؤں
 یادوں کے تانے بانے بنتے ہیں،ٹوٹتے ہیں
 تو بے بسی ہاتھ تھام لیتی ہے
 اور کہتی ہے تو نہیں ہے کہیں نہیں ہے
 ماں جو جنّت نشاں ہے