ماں تیری یاد کو لفظ بناتی ہوں
تو وہ تیرے لہجے کی خوشبو کو ترستے ہیں
جیسے کوری مٹی کے کھنکھناتے برتن پر
پانی کے چند قطرے گریں
تو محض کھن کی آوازآتی ہے
کوئی لہجہ آتا ہے نہ کوئی لمس
اورشب و روزکی محنت سے جوڑے یادوں کے وہ چند لفظ
حقیقت کی ایک ہی ٹھوکر سے تڑخ جاتے ہیں کہ
تو نہیں ہے
اور جو ہستی کی تکان سے بوجھل آنکھیں
تیری یادوں کے خواب بْننا چاہیں
توخاموش دھندلے سے خاکے
تیری شبیہ کے رنگوں کو ترستے ہیں
آنکھوں کی تھکن بڑھتی ہے خوابوں کی اْلجھن بڑھتی ہے
بے صدا الفاظ بے شبیہہ تصویریں
دْکھوں کی چْبھن بڑھاتی ہیں زیست کی تکان کو بڑھاتی ہیں
کوئی کندھا نہیں کوئی آغوش نہیں
کوئی دلاسا نہیں اور تیری طرف جاتا کوئی رستہ نہیں
بس مٹی کا گھروندہ ہے جو تیرا نشان بناتا ہے
مجھ کو پاس بْلاتا ہے
بے حْکم کیسے جاؤں اپنے درد کیسے بتاؤں
یادوں کے تانے بانے بنتے ہیں،ٹوٹتے ہیں
تو بے بسی ہاتھ تھام لیتی ہے
اور کہتی ہے تو نہیں ہے کہیں نہیں ہے
ماں جو جنّت نشاں ہے