اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا تھا پتھر
ہم بھی جانے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہوجائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہوجائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں کہ قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی فراز
کیا کریں جب لوگ خدا ہوجائیں