اے میرے پیارے بندو ’ اے جنت کے سوداگرو
دنیا کے خساروں ’ کی بات نہ کرو
تم نے ثریا کی بلندی پہ ڈالی ہے کمند
تم زمیں کے ستاروں کی بات نہ کرو
تم تو جنت کے موسموں کے ہو خوگر
ان آتی جاتی بہاروں کی بات نہ کرو
فردوس کی شوخیوں کے چاہنے والو
ان چند روزہ نظاروں کی بات نہ کرو
حوض کوثر سے پیاس بجھانے والو
زمیں کے فواروں کی بات نہ کرو
تم نے سودا کیا ہے زلفِ حور کا
ان رنگے ہوئے رخساروں کی بات نہ کرو
ستاروں اور شہابوں کی طلبگارو
یاقوت و مرجانوں کی بات نہ کرو
فرُسانِ الہی کے سوارو
چمکتی دمکتی کاروں کی بات نہ کرو
تم نے مانگا ہے فرشتوں اور رحمٰن کا ساتھ
یوں بچھڑے ہوئے یاروں کی بات نہ کرو
تم جو بیکراں سمندر میں کودے ہو
اب مجھ سے کناروں کی بات نہ کرو
تواصی بالحق و تواصی بالصبر کا نعرہ جو لگایا
پھر رکنے کے اشاروں کی بات نہ کرو
القہار کے خوف سے دبکنے والو
اس جہاں کی قہاروں کی بات نہ کرو
النار کے تصور سے بلکنے والو
دنیا کے انگاروں کی بات نہ کرو
استقبال جنت کے منتظر ہو تم
بکھرے پھولوں کے ہاروں کی بات نہ کرو
شیطان کے واروں سے بچنے والو
ان چھپے عیاروں کی بات نہ کرو