لوگ یوں بھی اعتراف جرم کرتے رہے
آئینوں کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے
رات کی قسمت ضمیر اس کا منور ہو نہ ہو
فرض اپنا چاند تارے تو بجا لاتے رہے
اُن کی جانیں دستکش ان کی حمایت سے ہوئیں
رہروانِ شوق پر ایسے بھی وقت آتے رہے
آدمیت پر تصرف ہو گیا ابلیس کا
شیخ جی نور و بشر پر بحث فرماتے رہے
آج بھی جعفرؔ تمہاری یاد میں کھویا رہا
آج بھی جعفرؔ کو تم رہ رہ کے یاد آتے رہے