تو نے جس وقت یہ انساں بنایا یارب
اس گھڑی مجھ کو تو اک آنکھ نہ بھایا یارب
اس لیے میں نے اپنا سر نہ جھکایا یارب
لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یارب
عقلمندی اسی میں ہے کہ میں توبہ کر لوں!
سوچتا ہوں اب اس انساں کو سجدہ کر لوں
ابتدا تھی بہت نرم طبیعت اس کی
قلب و جاں پاک تھے، شفاف تھی طنیت اس کی
پھر بتدریج بدلنے لگی خصلت اس کی
اب تو خود مجھ پر مسلط ہے شرارت اس کی
اس سے پہلے کہ میں اپنا ہی تماشا کر لوں
سوچتا ہوں اب اس انساں کو سجدہ کر لوں
بھر دیا تو نے بھلا کونسا فتنہ اس میں
پکتا رہتا ہے ہمیشہ لاوا اس میں
ایک اک سانس ہے اب صورت شعلہ اس میں
آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں
اپنا آتشکدہ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انساں کو سجدہ کر لوں
اب تو یہ خوں کے رشتوں سے بھی اکڑ جاتا ہے
باپ سے، بھائی سے، بیٹے سے بھی لڑ جاتا ہے
جب کبھی طیش میں ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے
خود مرے شر کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے
اب تو لازم ہے کہ میں خود کو سیدھا کرلوں
سوچتا ہوں کہ اب انساں کو سجدہ کر لوں
کچھ جھجکتا ہے، نہ ڈرتا ہے، نہ شرماتا ہے
میں برا سوچتا رہتا ہوں ، یہ کر جاتا ہے
کیا ابھی اس کی مریدی کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انساں کو سجدہ کر لوں